تعلیم ــــــ مگر کیوں؟

ہم جب بھی تعلیمی نظام یا تعلیم کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو عام طور پر عمارتیں، جماعت، درجنوں اساتذہ، سیکڑوں طالبعلم اور ایک نصاب لازمی طور پر فرض کرلیا جاتا ہے۔ مگر میرے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ تعلیم ایک ایسی شئے ہے جسے انسان ہر وقت حاصل کرتا رہتا ہے۔ ہمارا ہر تجربہ کسی نہ کسی انداز میں ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ یعنی کچھ نہ کچھ ہم پر اثر انداز ہوتا ہے، کوئی تاثر قائم ہوتا ہے جو کسی ردِعمل کو پیدا کرتا ہے، جس سے کئی نتائج سامنے آتے ہیں، اور یہ سارا واقعہ ہماری یادداشت میں محفوظ ہو جاتا ہے، اور ممکنہ طور پر دیگر تاثرات سے مربوط بھی ہو جاتا ہے۔ بظاہر تعلیم ایک نہایت پیچیدہ اور پر اسرار مظہر ہے ۔
خیر، یہ سب ایک فلسفیانہ گفتگو ہے، مگر غور کرنے کی بات ہے کہ اگر ہم سوچیں کہ رسمی یا نصابی تعلیم کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ آہ! آخر یہ بات احمقانہ کیوں لگتی ہے؟ ظاہر ہے! پیشہ ورانہ اساتذہ کو یہ احمقانہ ہی لگے گی، لیکن میں ان کے علاوہ کی بات کر رہا ہوں۔
اگر میری اپنی بات کروں تو، جو کچھ بھی میں نے اسکول میں سیکھا، اس میں سے بیشتر مجھے بے معنی معلوم ہوا۔ لیکن اسے بھلانا سیکھنے سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوا۔ بہرحال، جب تک میں نے ان سب کو نظرانداز کرنا نہیں سیکھا تھا، تب تک ان کی جگہ کوئی درست چیز میرے لئے سیکھنا دشواری کا باعث تھی۔ یہاں میں نے زبردست محنت کا ضیاع محسوس کیا، جو شاید اس وقت بچایا جا سکتا تھا اگر میں "تعلیم یافتہ" نہ ہوتا۔ البتہ، جو چیزیں میں نے بعد میں سیکھیں، وہ میری دلچسپی کی وجہ سے تھیں، اور مجھے زبردستی رٹوانی نہ پڑیں۔ جو کچھ میں اب "جانتا ہوں" اس کا بیشتر حصہ مجھے اسکول سے باہر حاصل ہوا ، یعنی میرے روزمرہ زندگی کے تجربات سے۔
صاف بات یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ اگر مجھے کوئی رسمی /نصابی تعلیم نہ ملی ہوتی تو میری زندگی کچھ زیادہ مختلف یا بدتر ہوتی۔ یقیناً آپ نے بھی کسی نہ کسی کو کبھی ایسا کہتے سنا ہو گا۔ تخصص (Specialization) اتنی دور جا چکی ہے کہ ہم ہمہ جہت ہونا بھول چکے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ محض سیلز مین، یا ڈرائیور، یا افسر، یا پیچ کسنے والے (مکینک) ہیں ، اور بس، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ہم میں سے کم ہی لوگ اپنی زندگی میں وقفہ لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جو ہم کر رہے ہیں اس کا کوئی مطلب ہے بھی یا نہیں، اور میرا خیال ہے کہ کم از کم تین چوتھائی کام جو لوگ کر رہے ہیں یا تو اس کے کوئی معنی نہیں، یا سراسر نقصان دہ ہے۔
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر رسمی/نصابی تعلیم کو ختم کر دیا جائے، تو اس کی جگہ لوگ خود سے نشستیں لگائیں گے جہاں وہ آ کر مختلف امور پر بحث کریں،وہ اپنی سوچ کو ثابت کرنے کے لئے حقیقت کی شکل دینے کی کوشش کریں گے، اپنے نظریات یا خیالات کو تجربات سے آزمائیں گے، چیزیں تخلیق کریں گے، وغیرہ۔ یوں ایک خود رو، آزاد، اور بتدریج بڑھتی ہوئی فکری تحریک جنم لے سکتی ہے جو اس رسمی، خشک، اور حد درجہ تخصص زدہ مسخ شدہ تعلیم نظام کی جگہ لے سکتی ہے جسے ہم آج ایجوکیشنل سسٹم(تعلیمی نظام) کہتے ہیں۔ اور میرے خیال میں اس سے اساتذہ اور بہتریں اور بمعنی ہوجائیں گے۔اور میں تو یہ بھی تصور کرتا ہوں کہ لغو، بے مقصد گفتگو جو لوگ گھروں، ہوٹلوں ، حجام کی دکانوں اور دیگر تقریبات میں کرتے ہیں، ختم ہو جائے گی ۔ صرف اس وجہ سے بھی کہ وہ اسکول ختم ہو چکے ہوں گے جو ہمیں بے وقوف بننا سکھاتے ہیں۔
کیا کوئی بھی باشعور انسان اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ سب سے خشک، رذیل اور بے جان مواد جو نصابی کتب میں درج ہے، وہ اکثر پیشہ ور اساتذہ کے قلم سے ہوتا ہے؟ ان کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود، کتنے ایسے نام نہاد "ماہرین تعلیم" کے نام آپ گنوا سکتے ہیں جنہوں نے واقعی کوئی قابلِ ذکر کام کیا ہو؟
میں نے کئی پروگرامز سنے ہیں جو تعلیم کے موضوع پر ہوتے ہیں، اور ان میں شامل تعلیمی نظام سے منسلک افراد کی واحد پرجوش بات یہ ہوتی ہے کہ اگر اساتذہ کو تنخواہ زیادہ ملے تو وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ کالج کے صدور سے لے کر غیر حاضر طالبعلموں کے نگراں تک، سب کی شکایت یہی ہوتی ہے کہ اگر فنڈز کی کمی نہ ہو تو وہ تعلیم کے میدان میں انقلاب لا سکتے ہیں۔ شاید وہ درست ہوں، لیکن نہ جانے کیوں مجھے ان کی باتوں سے کچھ بد ذوقی سی محسوس ہوئی۔ اور یہ شکایت صرف شرقِ أوسط کو پیش نہیں آتی بلکہ پوری دنیا کا یہی حال ہے۔
والدین فطری طور پر بچے کے پہلے استاد ہوتے ہیں، لیکن جب بچے کا جستجو بھرا ذہن والدین کے اکثر خالی ذہن سے ٹکراتا ہے تو احترامِ والدین کیا صورت اختیار کرے گا؟ گھریلو زندگی کے زوال کے اسباب جو معاشی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، وہ اس "باشعور زندگی" کی تعلیم کے لیے سازگار نہیں جنہیں بعض لوگ بہت اہم سمجھتے ہیں۔ یہ کوئی راز نہیں کہ نرسری اور ابتدائی جماعتیں زیادہ تر بچوں کو "گلیوں سے دور رکھنے" یا والدین کو ان "شرارتی بچوں" سے کچھ دیر کے لیے نجات دینے کے لیے ہوتی ہیں، اور اسی محبت و قربت کے زمانے یعنی عہدِ طفولیت جس میں بچوں کو سب سے زیادہ والدین اور قدرت کے قریب ہونا چاہئے تھا اس میں ان بچوں کو نصابی تعلیم کے قفس میں دن کے بڑے حصے کے لئے قید کردیا جاتا ہے، جہاں ان بچوں کی قوتِ ارادی اور سوچ پر پابندی لگا دی جاتی ہے، ان کے ذہنوں میں ابھرنے والے ہزاروں سوالوں کو چپ کروا دیا جاتا ہے، ان کی ابتدائی نشونما کو بدترین اور بےرحمی کے ساتھ تباہ کردیا جاتا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم مزید اپنی اولادوں اور اپنے مال کو تعلیمی کارخانوں میں جھونکیں، میں سنجیدگی سے تجویز دیتا ہوں کہ تعلیمی نظام کو مکمل طور پر ختم کرنے اور اس خلاء میں پیدا ہونے والی ممکنہ چیزوں پر غور کیا جائے۔ مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میری بات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے اور کئی سوالات ان کے ذہنوں میں آشکار ہونگے، اور ان میں بیشتر لوگوں کا تعلق تعلیمی اداروں سے ہوگا مگر مجھے پر تنقید کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچئے گا کہ میری کہی اس بات میں حقیقت ضرور ہے۔
Previous Post Next Post