روشن خیال تحریکوں کا مختصر تعارف

Image: A brief Introdution to Enlightenment Movement
مفکرین کی محافل میں جب بھی بات جدید نظام یا معاشرے میں خرابی کی آتی ہے تو وہاں روشن خیالی کا ذکر اکثر کیا جاتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو کبھی ان تحریکوں سے وابستہ نہیں رہے یا ان کا مطالعہ ان کے بارے میں نہیں ہوتا، ان کے ذہن میں سوال ضرور ابھرتا ہے کہ آخر روشن خیالی کیا ہے؟ اور مشرقی معاشروں میں اسے منفی نقطہ نظر کے ساتھ کیوں دیکھا جاتا ہے؟  ہماری اس تحریر  میں ہم مختصراً غور کریں گے کہ آخر روشن خیالی کیا ہے؟ یہ کب اور کیسے شروع ہوئی؟ اور اپنی اگلی تحاریر میں بھی ہم اس کی تاریخ اور دنیا پر اثرات کے بارے میں پڑھتے رہیں گے۔

روشن خیالی ایک وسیع فکری و فلسفیانہ تحریک تھی،  جس نے ادب، زبان، فن، مذہب یہاں تک کہ سیاست  کو اپنے احاطے میں لیا۔ یہ تحریک سولہویں صدی کے وسط  میں دنیا کے سامنے آشکار ہوئی اور تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی تک جاری رہی۔ روایتی طور پر اس دور کو ”عصرِ عقل“ یا ”عہد روشن خیالی“ کہا جاتا ہے۔اس تحریک سے وابستہ مفکرین شعوری طور پر ایک نقطہ  پر متفق نہیں تھے، ہر مفکر ایک منفرد سوچ کا مالک تھا  مگر مجموعی طور پر یہ تمام مفکرین خود کو انسانیت، علمی اور معاشرتی ترقی کا سبب سمجھتے تھے، جس کی بنیادیں انسانی عقل کی بنیاد پر رکھی گئی تھی۔اس کے ساتھ ساتھ ان میں سے تقریباً مفکرین کا مقصد ایک ایسی معاشرت قائم کرنے کا تھا جہاں انسانی فکر اور ادارے غیر منطقی تعصب اور  مذہب پرستی سے آزاد ہو،ایک ایسا معاشرہ جو جاگیردارانہ نظام، سیاسی مطلق العنانی اور مذہبی عدم برداشت سے پاک ہو، جہاں انسان عقلی و آزادانہ بنیادوں پر سیاسی اور اخلاقی فیصلے لینے پر قادر ہو۔

روشن خیال تحریک کی شروعات یورپ میں ثقافتی آزادی کے طور پر رونما ہوئی، اس تحریک کا مرکز فرانس تھا اور اس کی قیادت رینے دیکارت، تھامس ہوبیز، باروخ اسپینوزا اور جان لاک جیسے فلسفی کررہے تھے۔ اس تحریک کے بنیادی مقاصد لوگوں کو ان کے وجود کا إحساس  دلانا یعنی لوگوں میں خود سوچنے کی صلاحیت کو ابھرانا، منصب اعلیٰ اور حُکام سے عدم اعتمادی،  اور مذہب بیزاری  وغیرہ تھا۔ اور سب سے بڑھ کر لوگوں میں یہ اجاگر کرنا تھا کہ  کوئی معاشرہ  اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس معاشرے سے وابستہ تمام لوگ اس کی ترقی کے لئے یکساں طور پر تعاون نہ کریں۔ الغرض یہ  کہ انہوں نے عقل کو محض ایک غیر جانبدار علم حاصل کرنے والی انسانی صلاحیت کے طور پر نہیں دیکھا گیا، بلکہ عقل کو ایک طرزِ زندگی اور ایک خاص  نقطہ نظر کے طور پر سمجھا  جارہا تھا، جس کی جڑیں معاشی میدان میں تھیں، جو بینکاری، سرمایہ کاری، تجارت اور صنعت کے حوالے سے نئے، عقلی رویوں کے تحت کام کر رہی تھیں، اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے مرتبے کے بارے میں گہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ تھیں۔

روشن خیال تحریک بنیادی طور پر ناکام رہی مگر اس نے بہت سی فکروں کو جنم دیا۔ جس میں مشہوم ترین عقلیت پسندی ،  تجربہ پرستی  اور مادیت شامل ہیں۔ اس تحریک نے اٹھارویں صدی کے آخر میں اپنا دم توڑ دیا مگر اس نے عہد جدید کے بہت سے مفکرین پیدا کیے۔  دنیائے یورپ میں سائنسی انقلاب ، روشن خیالی کی ایک خاص وجہ تصور کی جاتی ہے۔ جوہانس کیپلر جو کبھی روشن خیال دور کا حصہ نہیں رہے،حلانکہ وہ تو بہت مذہبی شخصیت تھے اور اپنے سائنسی کارناموں کو خدا کی مشیت کا حصہ سمجھتے تھے۔ مگر ان کے کام نے روشن خیال تصور کی راہیں ہموار کیں۔ان کا کائنات کو ریاضی کے اصولوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کرنا عقلیت پسندوں کے لئے راستے بنانے جیسا تھا؛ جیسا کہ ایمانوئل کانٹ نے نظامِ شمسی کی تشکیل پر کیپلر کے نظریات کا حوالہ دیا۔ اسی طرح آئزک نیوٹن نے کیپلر کے قوانین کو اپنے نظریات  کشش ثقل  کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اسی طرح گلیلیو گیلیلی،اگرچہ یہ بھی روشن خیال دور سے قبل کے ہیں مگر ان کے کارناموں نے روشن خیال تحریکوں کو تجربات کے تصور سے آگاہ کروایا۔ گلیلیو نے سائنسی میدان میں سب سے بڑا کام کیا کہ اس نے سائنسی طریقہ کار کو تجرباتی شواہد کے تابع قرار دیا۔ اس سے قبل اسطو اور بطلیموس کے نظریات کی پیروی کی جاتی تھی جوکہ فلسفیانہ اور مشاہداتی شواہد پر مبنی تھے۔گلیلیو نے تجربات کے ذریعے نتائج حاصل کرنے پر زور دیا ،جس سےجدید  سائنس نے ایک نیا رخ اپنایا۔اس کے علاوہ گلیلیو کا کلیسا کے ساتھ گہرا اختلاف تھا وہ آزادیٔ فکر کے قائل تھے۔ اگرچہ گلیلیو خود مذہبی تھے، ان کا موقف یہ تھا کہ بائبل اور قدرتی دنیا دو مختلف ذرائع ہیں جن کے ذریعے خدا کو سمجھا جا سکتا ہے، اور ان دونوں کو متضاد نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس قدرت کے قوانین کو سمجھنے کا ذریعہ ہے، جب کہ بائبل روحانی ہدایت کے لیے ہے۔ اسی طرح فرانسس بیکن اور پئیر گیسنڈی بھی روشن خیال عہد کا حصہ نہیں تھے مگر وہ سائنسی دنیا میں تجربیت (Empiricism) اور مادہ پرستی (Materialism)کے حق میں تھے۔

اور سب سے اہم نقطہ، روشن خیالی کے بہت سے مباحث اور سوچ ایک نئی سائنسی کائناتی تصور پر مبنی تھی جو ایک ریاضی دان کے کارناموں کا نتیجہ تھی۔ آئزک نیوٹن  جوکہ بنیادی طور پر صرف سائنسدان تھے مگر ان کے نظریات نے فلسفے اور روشن خیال مفکرین پر گہرا اثرڈالا، خاص طور پر نیوٹن کے خیالات دیئسم (Deism) کے لئے بہت متاثر کُن ثابت ہوئے۔ جس کے مطابق خدا نے کائنات کی تخلیق کی، لیکن اس میں مداخلت نہیں کرتا۔ اس عقیدے نے دیئسٹ مفکرین کو متاثر کیا  جو کائنات کو طبیعی قوانین کے مطابق چلنے والی ایک خودمختار مشین کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس مکینیکل کائنات کے تصور کو سائنسی طور پر دریافت شدہ قوانین کے تحت اپنایا گیا جس نے اس تصور کو چھوڑ دیا کہ کائنات خدا کی مشیت کا ایک نمونہ ہے۔عقلیت پسندی کےیہ تصورات روایتی اورادارتی معاشروں کے لئے مشکلات کا باعث بنے، مگر دیکھنے کی بات یہ تھی کہ عقل پر انحصار کوئی نیا تصور نہیں تھا بلکہ افلاطون، ارسطو اور ان جیسے فلسفیوں نے عقل کو ایک ایسی صلاحیت کے طور پر متعارف کروایا جس کے ذریعے ہم دنیا کی حقیقتوں کو دریافت کرسکتے تھے۔اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں عیسائی فلسفے میں بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عقل روحانیت کا ایک ضروری عنصر ہے مگر اسے ایمان اور وحی کے ذریعے توازن میں رکھنا ضروری ہے۔عقل کے بغیر نہ خدا تک رسائی ممکن ہے اور نہ ہی نجات۔ مگر  روشن خیال عہد نے نئی بات یہ متعارف کروائی کہ عقل انسان کا بنیادی جز ہےجس کے ذریعے براہِ راست علم حاصل کیا جاسکتا ہے، اس کے لئے خدا یا وحی کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔یہ تصور آج بھی جدید جمہوری ریاستوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

روشن خیال تحریک کو تین شخصیت سے بہت زیادہ تقویت حاصل ہوئی۔ انگریزی مفکر فرانسس بیکن، فرانسیسی عقلیت پسند رینے ڈیکارٹ  اور ڈچ مفکر باروخ اسپینوزا۔ بیکن نے اپنی تصنیفات ” The Advancement of Learning “ اور ” The New Organon “ میں استقرائی منطقی طریقہ متعارف کروایا، جس میں ہم مشاہدے کی بنیاد پر نظریات قائم کیا کرتے ہیں، بیکن کا ماننا تھا کہ علم کے حصول کا زیادہ مؤثر طریقہ منطق ہے  بہ نسبت ان اصولوں کے جو روایتی معاشروں میں استعمال کیے جاتے ہیں، یعنی  قیاس اور بنفسیہ۔ اپنی کتاب The New Organon  میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ علم کو صرف اور صرف فطرتی مشاہدے سے حاصل کیا جاسکتا ہے، نہ کہ قیاس سے (جوکہ روایتی فلسفے کی بنیاد ہے)، قیاس کے ذریعے ہم ایک نظریہ تشکیل تو دے سکتے ہیں مگر حقیقت سے اس کا کوئی لازمی تعلق نہیں ہوگا۔انہوں نے اس بات کو مزید سمجھاتے ہوئے مثال دی کہ قیاس منطقی طور پر درست ہوسکتا ہے مگر اس کے نتائج غلط ثابت ہوسکتے ہیں ۔ لہذا علم تک پہنچنے کا واحد محفوظ طریقہ خالص منطق (مشاہدہ شدہ عقلی حقائق) ہے۔ بیکن نے مزید اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ صدیوں سے بہت سے روایتی نظام قبول کیے جارہے ہیں اور انہوں نے انسانی ذہن کو ’بتوں‘ کے ذریعے گمراہ کیا۔ بیکن ان بتوں کی چار اقسام بیان کرتا ہے۔

1.      قبیلوں کے بُت: یہ نظریہ انسانوں کے عام فہم کی کمی کہ وجہ سے فطرت کے بگڑ جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔(یعنی انسان کو فطرت سے آزاد بنایا مگر اپنی کم فہمی میں اس نے خود کا دوسرے انسانوں کے تابع کردیا)

2.      غار کے بت:  وہ کہتا ہے کہ انسان ذاتی طور پر ایک غار کی مانند ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا کو دیکھتا ہے، دنیا کو دیکھنے کا انداز اس کے ذاتی تجربات کی وجہ سے خراب  ہوجاتا ہے۔

3.     بازار کے بُت: جوکہ انسانوں کے آپسی تعلقات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب لوگ آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک سماجی دائرہ بن جاتا ہے اور اس کے پیش نظر اجتماعی گفتگو جنم لیتی ہے جو انسان اپنی کم فہمی اور فکری کمزوری کی وجہ سے ایک دوسرے کو خوش کرنے کے لئے رکھتے ہیں۔

4.     تھیٹر کے بت: یعنی اس کے نزدیک نظام ایک اسٹیج ڈرامے کی مانند ہے جہاں لوگ اپنی تخلیق کردہ دنیا کی نمائندگی کرتے ہیں نہ کہ حقیقی دنیا کی۔ }یہاں نظام سے تمام نظامِ حیات مُراد ہیں؛ خاندانی، سیاسی، سماجی یا کوئی غیر جانبدار نظام{

اسی طرح ”رینے ڈیکارٹ “جسے جدید فلسفے کا باپ بھی کہا جاتا ہے، ڈیکارٹ نے اپنی کتاب Discourse on Method“ میں اپنے فلسفے کی شروعات ہی شک کی بنیاد پر رکھی۔ اس نے ہر چیز پر شک کیا، حتیٰ کہ خود پر بھی اور دنیا پر بھی۔ وہ اس وقت تک کسی بھی چیز پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا جب تک کہ اس کے پاس یقین کرنے کی مضبوط دلیل نہ ہو، جس کے تحت وہ فکری نظام کو تشکیل دے سکے۔ اس کے کہا کہ وہ ہر اُس چیز کو جھوٹ تسلیم کرے گا جس میں ذرا  برابر شک ہو، تاکہ وہ حقیقی علم حاصل کرسکے۔ اس نے اپنے حواس کا مشاہدہ کرتے ہوئے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا کیونکہ انسانی حواس کبھی کبھی انہیں دھوکہ دیتے ہیں۔اس کے استدلال پر شک کیا اور یہاں تک کہ اس نے دنیا پر شک کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک فریب ہوسکتی ہے۔ مگر ہر چیز پر شک کرنے کے بعد اس نے کہا کیونکہ میں جوکہ  اس وقت سوچ رہا ہوں اس کا مطلب ”میں“ کچھ تو ہوں۔ اور اسے تسلیم کرتے ہوئے اس نے کہا ”I Think, Therefore, I am“ ”میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں“۔ اس طرح ڈیکارٹ نے Dualism کا نظریہ پیش کیا جوکہ ذہن اور جسم پر مبنی تھا۔ ذہن یعنی سوچنے والا عنصر اور جسم جس کا تعلق وقت، جگہ یا مادی دنیا کے ساتھ منسلک ہے۔اور یہاں سے دنیا نے ڈیکارٹ سے میکینکی کائنات  کا تصور حاصل کیا، جس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ جو چیز واضح اور جداگانہ عقل میں آتی ہے وہی حقیقت ہے۔ اسی لیے ڈیکارٹ نے ریاضی کو علم قرار دیا ، اس نے کہا کیونکہ ریاضی کی بنیادیں واضح اور منفرد ہیں اسی لیے یہی حقیقی علم ہے۔

اور جہاں تک بات اسپینوزا کی ہے تو وہ پیدائش النسل یہودی تھے، یہ ڈیکارٹ سے بہت متاثر تھے، یہاں تک کہ انہوں نے ڈیکارٹ کی عقلیت پسند اور غیر روایتی خیالات کو اپنے یہودی مذہب کے خلاف استعمال کیا اور اُنہیں یہودیت سے خارج کردیا گیا، ان کی بےجا بائبل کی تشریحات کی وجہ سے مسیحیوں نے بھی انہیں سخت تنقید کی نگاہ سے دیکھا۔ڈیکارٹ کے دوئی نظریے کے علاوہ انہوں نے ڈیکارٹ کی تائید کی، اور Dualism کے برعکس انہوں نے کہا کہ  کائنات ایک ہی مادہ سے بنی ہے اور اس کائنات کو انہوں نے خدا کی تخلیق قرار دیا اور ذہن اور مادے کے مختلف ہونے کا انکار کیا۔ اسپینوزا نے اپنی تصنیف ” the Ethics “ میں کہا کہ انسان کا اپنے جذبات پر عقلی طور پر قابو پانا بہترین بھلائی ہے اور اسے چاہئے کہ وہ قدرت میں موجود نظم  اور ہم آہنگی کو تسلیم کرے (یہ بات ڈیکارٹ کے نظریات کے خلاف اور خدا پرستوں کے حق میں تھی) ۔ مگر اسپینوزا کے بعد کے تمام مفکرین جیساکہ جان لاک، ڈیوڈ ہیوم، والٹیئر، ڈیڈروٹ، ڈی ایلمبرٹ وغیرہ نے ان کی بات کا رد کیا اور مذہب کو زیادہ شکی طور پر اور عقلی  اور منطقی رویے کو پھیلایا، یہاں تک کہ مذہب، معجزات اور رسومات کا انکار کیا۔

بیکن اور ڈیکارٹ کی وجہ سے  روشن خیالی کے عہد میں دو اہم شاخیں وجود میں آئیں جو آج تک قائم ہیں، تجربیت (Empiricism)اور عقلیت پسندی (Rationalism)۔مگر روشن خیالی میں ایک اور اہم شاخ   مادیت (Materialism) بھی ہے ۔ روشن خیال فکر سے متاثر لوگوں میں مادیت کا تصور کسی نا کسی حد تک پیدا ہو ہی جاتا ہے، بحرحال مادیت کو ماضی میں سب سے زیادہ تقویت تھامس ہوبز نے بخشی، اور اس نے عقل کی مادی طور پر تعریف کی اور احساسات کو ذرات کا تصادم قرار دیا۔

روشن خیال تحریک سیاسی میدان میں بھی پیچھے نہ رہی اور اس نے ”معاشرتی معاہدے“(Social Contract) کے نظریات وضع کیے، جس میں کہا کہ ریاست اور رعایا کے مابین ایک معاہدہ طے پانا چاہئےتاکہ معاشرتی زندگی قوانین کے تحت گزاری جاسکے، اور اس کے تحت حکمران کے لوگوں کے ساتھ تعلقات کی وضاحت ہونی چاہئے۔ جس کی وضاحت تھامس ہوبز اپنی کتاب ”Leviathan“ میں بیان کرتا ہے کہ انسان اس وقت تک جنگ کی حالت میں رہے گا جب تک کہ قانون یا معاہدے طے نہ ہوجائے۔منطقی طور پر،ہوبز کہتا ہے کہ فطرت نے تمام انسانوں کو آپس میں برابری کی بنیاد پر خلق کیا ہےجب اس برابری میں عدم اعتماد پیدا ہوگا تو اس کے نتیجے میں دشمنی اور جارحیت پیدا ہوگی۔ اس نے مزید کہا، انسان اپنی بقا چاہتا ہے  جس کے لئے وہ دوسروں پر غالب آنے کی جستجو میں لگا رہے گا، یا پھر انسان شہرت کی خاطر ایک دوسرے سے جنگ کرے گا۔ ہوبز کے مطابق اس جنگ میں کوئی کاروبار چل نہیں سکتا، اور نہ ہی کوئی ثقافت، فن یا سائنس زندہ رہ سکتی ہے (کیونکہ ان سب چیزوں کی اہمیت انسانی حیات پر مبنی ہے اگر انسان ایک دوسرے سے لڑنے میں لگے رہے تو ان معاشرتی اداب پر کوئی غور نہیں کرے گا)۔اس کے نتیجے میں ہر طرف خوف، تشدد، موت، تنہائی، غربت اور ظلم بڑھے گا۔ اس انسانی حالت میں کوئی قانون یا اخلاقیات کام نہیں آئے گی۔اس کے برعکس اگر معاشرتی معاہدہ قائم ہوگا تو ریاستیں دوسری ریاستوں سے لڑے گی اور انسان ترقی کرے گا۔

اسی طرح روشن خیالی کی ایک اور اہم شاخ لبرلزم ہے، اور اس کی تشکیل میں جان لاک کا بہت اہم کردار ہے۔ جان لاک نے اپنی تصنیفات ” An Essay Concerning Human Understanding “ اور ”Two Treatises on Civil Government   میں ڈیکارٹ کےعقل تصورات (innate ideas) کا رد کیا اور کہا کہ انسانی ذہن کسی بھی تصورات کے بغیر پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ ایک خالی تختی کی مانند ہوتا ہے جس پر انسان دنیاوی تجربات کی بنیاد پر تحریر کرتا ہے۔لاک کہتا ہے کہ ہماری حسیات ہمیں دنیاوی چیزوں کے تصورات فراہم کرتی ہے، مثلا؛ رنگ، موسم یا مادے کا میعار (نرم، سخت) وغیرہ، جن کے مطابق ہم سوچتے ہیں، شک کرتے ہیں، ترک کرتے ہیں اور یقین کرتے ہیں۔ لاک کے مطابق، یہی علم حاصل کرنے کا حقیقی طریقہ ہے۔وہیں دوسری جانب ڈیوڈ ہیوم نے لاک کے تجربیت پسند نظریات کو مزید پیچیدہ بنا دیا، جہاں لاک نے کہا کہ ہمارا ذہن دنیا کو تصورات کی بنیاد پر جانتا ہے، وہیں ہیوم نے دعویٰ کیا کہ ہم صرف اپنے تصورات سے وابستہ ہیں نہ کہ اس دنیا سے۔ہیوم کے مطابق ہم دنیا کا ادراک صرف اس منہج پر کرسکتے ہیں جو یہ ہمارے ذہن میں پیدا کرتی ہے،  اوراس کے وجود کا اندازہ ہم اس بات سے لگاتے ہیں کہ ہماری سوچ اس دنیا کے ساتھ کتنی ہم آہنگ ہے، اب یہ واقعی موجود ہے یا ہمارے حسیات کا دھوکہ۔ اس کے علاوہ ہیوم نے علت (Causality)  کا  رد کیا جس پر جدید سائنس کی بنیادیں قائم ہیں اور سائنس کے نزدیک اسے حقیقی اصول کا درجہ حاصل ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ محض رسم و رواج کی بنیاد پر قائم ہے اس کی حقیقت میں کوئی حیثیت نہیں۔ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس کی وجہ علت و معلول نہیں بلکہ ”constant conjunction “ ہے یعنی دو چیزوں کوبَیَک وَقْت دیکھنے کی ہماری گندی عادت۔۔۔

کچھ فلسفوں نے فرانسیسی انقلاب پر گہرے اثرات مرتب کیے، مثلاً لاک کی تصنیف ”Second Treatise of Civil Government “ نے انقلاب کے بعد انگلینڈ میں رائج ہونے والے سیاسی نظام کو تشکیل دینے میں مدد کی، لاک نے بادشاہی نظم اور خودمختار پارلیمنٹ پر تنقید کی اور کہا کہ عوام کو ظلم کے خلاف مزاحمت کا پورا حق ہے، وولٹیر نے روشن خیال بادشاہت یا جمہوریت کی حمایت کی، بارون دی مونٹسکیو نے لبرل نظریات پیش کیے، جوکہ قانون سازی اور عدالتی اختیارات کی علیحدگی پر مبنی تھے، جین جیکس روسو کے فلسفے نے جمہویت، مساوات اور نجی جائیداد پر گہرا اثر ڈالا جو ان کی کتاب The Social Contract میں پیش کیے گئے۔کچھ پہلوؤں میں روسو کو روشن خیالی کا حصہ تصور نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں رومانویت کا بانی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے تہذیب، جذبات اور جبلت کو فطرت، عقل اور روایات پر فوقیت دی۔

روشن خیال فلسفے کے اہم رجحانات جو ہم نے اخذ کیے  وہ عقلیت، تجربیت، نتائجیت، افادیت پسندی وغیرہ ہیں۔ یہ تمام رجحانات بعد میں بورژوازی (یہ ایک مخصوص طبقہ ہے جسے عام طور پر سرمایہ دار طبقہ بھی کہتے ہیں) سوچ کی بنیاد بنے۔اس سوچ کے اہم مفروضات مندرجہ ذیل تھے؛

·       دنیا مخصوص چیزوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہیں۔

·       شعور اور دنیا ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

·       خارجی حقیقت (دنیا) ہماری عقل سے آزاد ہے۔

·       خیالات ہمارے ذہنوں کی بنائی حقیقت ہیں مگر دنیا میں ان کو کوئی وجود نہیں۔

یہ وہ مفروضات تھے جن کی وجہ سے روشن خیال فلسفے میں دیگر کئی فکروں کا اضافہ ہوا، مثلاً؛

·       دنیا ایک خودکار مشین ہے جو قوانین کے تابع ہے۔

·       انسانی معاشرہ الگ الگ افراد کا مجموعہ ہے۔

·       انسان ایک آزاد اور خودمختار عقلی وجود ہے۔

·       عقل اور تجربہ علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔

Previous Post Next Post