رینے ڈیکارٹ
رینے ڈیکارٹ فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور فلسفی، بہترین ریاضی دان اور ایک اہم ترین سائنسی مفکر تھے۔ سائنس اور فلسفے کے میدان میں وہ نہایت اہم شخصیت مانے جاتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ جدید فلسفے کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ ریاضی میں ڈیکارٹ نے وہ طریقہ کار متعارف کروایا، جس کے ذریعے الجبری اور جیومیٹری سے ریاضی کا ایک نیا شعبہ ”تجزیاتی جیومیٹری“ (Analytical Geometry) بن کر سامنے آیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی کارنامے انجام دیے۔ قدرتی فلسفے (قدرتی سائنس) میں ڈیکارٹ نے روشنی کے انعکاس کا قانون شائع کیا، اور انہوں نے قوس و قزح کا ایک تجرباتی نظام پیش کیا۔ علاوہ ازیں، زمین اور سیاروں کی تشکیل کا ایک قدرتی نظریہ بھی پیش کیا (جو بعد میں نیبولر فلسفے کی بنیاد بنا)۔
ڈیکارٹ کے کاموں میں سب سے اہم انہوں نے فطرت کے نئے قانون متعارف کروائے، جس کے نتیجے میں جدید طبیعیات وجود میں آئی۔ انہوں نے مادی دنیا کے تصور کے ساتھ ساتھ غیر مادی ذہن کا فلسفہ بھی متعارف کروایا۔
ابتدائی زندگی
رینے ڈیکارٹ کی پیدائش 31 مارچ 1596 ء میں فرانس کے ایک چھوٹے قصبے ’لا ہائے این تورین‘ میں ہوئی، (بعد میں اعزازی طور پر تورین کا نام ڈیکارٹ کے نام پر رکھ دیا گیا)۔ ان سے قبل دو بہن بھائی اور بھی تھے اور وہ اپنے والدین کی آخری اولاد تھے کیونکہ ان کی والدہ’جین بروشارڈ‘ کا ڈیکارٹ کی پیدائش کے ایک سال کے اندر ہی انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی والدہ کے انتقال کے بعد ان کے والد ’جو آخم‘ نے انہیں ان کی نانی کے یہاں بھیج دیا تھا۔ ڈیکارٹ کے والد صوبائی پارلیمنٹ کے رکن تھے، انہوں نے ڈیکارٹ کی والدہ کے بعد دوسری شادی کرلی تھی۔ ڈیکارٹ تب بھی اپنی نانی کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے، اس کے باوجود ان کے والد ان کی تعلیم کے بارے میں بہت فکرمند تھے اور انہوں نے ڈیکارٹ کو آٹھ سال کی عمر میں جیسوٹ کالج ہنری کے بورڈنگ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا تھا، جہاں ڈیکارٹ نے سات سال گزارے۔ ڈیکارٹ موروثی طور پر کیتھولک مذہب سے تعلق رکھتے تھے، مگر وہ جس علاقے سے تعلق رکھتے تھے وہ تمام پروٹسٹنٹ ریاست کے ماتحت آتا تھا۔1598 میں فرانس میں پروٹسٹنٹ مذہبی آزادی کے بعد وقفے وقفے سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ جنگیں جاری رہتی تھی، جس میں ان دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود ڈیکارٹ 1628 تک اپنے ننہیال پوئیتو باقاعدگی سے جاتے رہتے تھے۔
ڈیکارٹ کو بچپن ہی سے منطق، ریاضی ، فلکیات، فلسفہ، ماورائے فلسفہ، قدرتی فلسفہ اور اخلاقیات کا خاص شوق تھا۔ انہوں نے بچپن ہی سے ریاضی فنون اور فلسفہ کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ اپنے اسکول سے فراغت کے بعد انہوں نے پوئتیرس یونیورسٹی میں قانونی ڈگری کی تعلیم (Law Degree) کے لئے داخلہ لیا۔ بعدازاں ڈیکارٹ نے الہیات اور طب کوبھی اپنی تعلیمی زندگی کا حصہ بنایا۔ لیکن یہ تمام علم و فنون بھی ان کو تسکین فراہم نہ کرسکے، اس لیے انہوں نے ان تمام علوم کے حصول کی جدوجہد چھوڑ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ صرف اس علم کے حصول میں اپنی محنت کو صرف کریں گے ”جو علم خود ان کے اندر پایا جاتا ہے یا پھر دنیا کی عظیم کتابوں میں درج ہے“۔
اپنی مطلوبہ علم کی تلاش میں ڈیکارٹ نے سفر کرنا شروع کیا، ابتداء میں انہوں نے ڈچ فوج میں شمولیت اختیار کرلی جہاں انہوں نے جنگوں کے مناظر دیکھے اور بعد میں ڈچ سے تعلق رکھنے والے سائنس دان اور فلسفی آئزک بیکمین سے ملاقات کی، جوکہ ان کے لئے ایک بہترین استاذ ثابت ہوئے۔
ڈیکارٹ کا علمی سفر
ڈیکارٹ نے اپنی ابتدائی تعلیم جیسوٹ کالج ہنری سے حاصل کی۔ وہ پڑھنے میں بہت اچھے تھے مگر بچپن سے ان کی طبعیت خاص ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ انہیں آرام کے لئے اسکول دیر سے آنے کی اجازت تھی، ڈیکارٹ اپنے فارغ وقت مین ریاضی کے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرنے میں گزارتے یا پھر انہیں فلسفے سے گہرا لگاؤ تھا، وہ مختلف فلسفے کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ جیسوٹ کالج کے بعد ڈیکارٹ نے قانون کی سمجھ بوجھ کے لئے پوئتیرس یونیورسٹی سے قانون میں بیچلر کرنے کی غرض سے داخلہ لیا۔ انہوں نے مختلف اداروں اور لوگوں سے نجی طور پر الہیات اور طب کی تعلیم بھی لی۔
ڈیکارٹ نیدرلینڈ میں
ڈیکارٹ کے سفر کی شروعات 1618 میں ڈچ فوجی دستے میں شمولیت سے ہوئی، وہ ڈچ فوجی دستے کی کمانڈ میں نیدرلینڈ کے شہر بریڈا میں قیام پزیر ہوئے۔ بریڈا میں رہائش کے دوران ان کی ملاقات آئزک بیکمین سے ہوئی، بیکمین نے ڈیکارٹ میں موجود ریاضی اور سائنس کی مہارت کو ابھارا۔ ڈیکارٹ کی زندگی پر بیکمین نے بہت گہرا اثر کیا۔ ڈیکارٹ نے کچھ عرصہ ڈچ فوج کے ماتحت گزارا اور بعد میں بیکمین کے ساتھ ہی جرمنی چلے گئے۔
ڈیکارٹ جرمنی میں
ڈیکارٹ نے جرمنی میں اپنی تعلیمی قابلیت کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی۔ جرمنی میں رہائش کے دوران ڈیکارٹ نے عقل کو استعمال کرنے کے کئی طریقے تلاش کئے۔ انہوں نے کوئی ایسے طریقے دریافت کئے جس میں وہ ریاضی کی بنیاد پر سوال اور دلائل ڈھونڈتے، اور عقل اور ریاضی کا استعمال کرتے ہوئے ان مسائل کے جوابات دیتے۔ جرمنی میں ڈیکارٹ نے 3 سال گزارے، جہاں ان کی عقلی بصیرت اور ریاضی کے علوم میں بےپناہ اضافہ ہوا۔
ڈیکارٹ اٹلی میں
1623 میں ڈیکارٹ جرمنی سے اٹلی آگئے، مگر اٹلی میں ان کی ملاقات کسی اہم شخصیت سے نہیں ہوئی، اور نہ ہی انہوں نے کسی نئے علوم کی دریافت کی۔ البتہ اٹلی میں انہوں نے طرح طرح کے علوم کی کتب کا مطالعہ کیا مگر انہیں وہاں سے خاص تسکین حاصل نہ ہوسکی۔ وہ مزید 2 سالوں تک اٹلی میں رہائش پزیر رہے اور 1925 میں اٹلی کو چھوڑنے اور واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا۔
ڈیکارٹ کی فرانس میں واپسی
اٹلی کو چھوڑ کر ڈیکارٹ 1925 میں سیدھے فرانس کے شہر پیرس آگئے۔ ڈیکارٹ نے اس وقت کے روحانی علوم کی تحقیق شروع کردی، جہاں وہ تھیوسوفی لوگوں سے ملے، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ قدرت پر اختیار رکھتے ہیں۔ مگر وہ کیٹالان کے صوفی رامون لول اور جرمن کیمیاء دان ہائنزخ کارنیلیئس سے بہت مایوس ہوا مگر وہیں ان کی ملاقات جرمن ریاضی دان جوہان فالہابر سے ہوئی جس سے ڈیکارٹ بہت متاثر ہوئے۔ (وہ بھی صوفیانہ تنظیم Rosicrucian’s) ) کے رکن تھے۔ اور ان سے متاثر ہوکر ڈیکارٹ نے Rosicrucian’s کو اختیار کرلیا، وہ انہی کی طرح وہ خلوت پسند ہوگئے، اپنی رہائش کو بارہا تبدیل کرتے رہتے اور لوگوں کا مفت طبی علاج بھی کردیا کرتے۔وہ انسانی حیات کو بڑھانے کی کوشش میں تھے، انہیں امید تھی کہ سائنس ضرور انسانی حالات کو بہتر بنا سکتی ہے، (انہوں نے اپنے نجی دستاویز بھی اپنے آخری ایام میں Rosicrucian طبیب کے سپرد کیے تھے) مگر ان سب کے باوجود انہوں نے صوفیانہ عقائد اور Rosicrucian’s کو مسترد کردیا تھا۔ کیونکہ وہ جدید سائنسی انقلاب لانے کے لئے کوشاں تھے۔اور فرانسس بیکن کی 1605 میں شائع ہونے والی کتاب Advancement of Learning میں مشاہدہ اور تجربہ کی نئی سائنسی تجویز کو پڑھ کر بےحد پُر امید ہوگئے تھے، جس کے ذریعے ارسطو طالیسی سائنس کو تبدیل کرنا ممکن تھا۔
ڈیکارٹ نے پیرس میں مزید بہت سے دوست اور بنائے، ان کے دوستوں میں شاعر- جین لوئس بالزاک، )جنہوں نے اپنی کتاب ”Le Socrate chrétien “ کو ڈیکارٹ کے نام منسوب کیا) اور تھیو فائل دی ویاؤ ،( جنہیں مذہبی عقائد کا مذاق اڑانے والی نظموں کی وجہ سے جلا دیا گیا تھا) اوران کے کئی ریاضی دان دوست بھی تھے جیساکہ ڈان کلاؤڈ میڈورج اور فادر مارین مرسین وغیرہ۔ مگر اتنے دوستوں کے باوجود Rosicrucian’s نے ڈیکارٹ پر گہرا اثر چھوڑا تھا، وہ تنہائی کی تلاش میں دوستوں سے چھپتے پھرتے تھے تاکہ اپنا کام بآسانی کرسکیں۔پیرس میں ڈیکارٹ نے بہت شہرت حاصل کی۔1628 میں ایک انٹرویو کے دوران ڈیکارٹ نے کیمیاء شینڈوکس کے دعوے کو مسترد کیا کہ سائنس میں احتمالات(Probabilities) یقین کے برابر ہے، اور اپنے طریقہ کو متعارف کروایا جس میں حتمی یقین حاصل کیا جاسکتا ہے۔ حاضرین میں کارڈینل پیئر دی بیریل بھی موجود تھے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈیکارٹ نے سینٹ آگسٹائن کے فلسفے پر مبنی مابعد الطبیعات لکھنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ وہ یسوعی رہبانیت کی جگہ لے سکیں۔ مگر بحرحال کچھ ہی وقت بعد وہ نیدرلینڈ چلے گئے، اور اپنا ٹھکانہ سب سے چھپائے رکھا، اور 16 سالوں تک فرانس واپس نہیں گئے۔
ڈیکارٹ کی نیدرلینڈ میں واپسی
فرانس چھوڑ کر ڈیکارٹ 1628 میں ڈچ-نیدرلینڈ آگئے، ڈیکارٹ نے اپنے نیدرلینڈ آنے کی وجہ بتاتے ہوئے لکھا کہ وہ ایک ایسی زندگی چاہتے تھے، جہاں آزادی میسر ہو مگر پیرس میں انہیں یہ آزادی کہیں میسر نہیں تھی، وہاں پیرس اور دوستوں کی مداخلت انہیں غور و فکر سے روکتی تھی۔نیدرلینڈ میں انہیں پوری طرح سے سوچنے کی آزادی حاصل تھی اور فوجوں میں بھرتی ہونے سے بھی بچ سکتے تھے، جیساکہ کیتھولک ریفارمیشن کی جنگوں میں لوگوں کو زبردستی بھرتی کیا جارہا تھا - فرانس کے حالات زیادہ سازگار نہیں تھے، وہاں مذہبی عدم برداشت میں حد درجہ اضافہ ہوتا جارہا تھا، یہاں تک کہ 1615 میں یہودیوں کو فرانس سے بےدخل کردیا گیا- ڈیکارٹ کے فرانس چھوڑنے کے فوراً بعد ہی وہاں قانون نافد کردیا گیا کہ جو شخص بھی ارسطو کے عقائد پر تنقید کرے گا اسے موت کی سزا دی جائے گی، اور بدعتی لوگوں کو تو ویسے ہی جلایا جارہا تھا۔ بحرحال، 1629 میں ڈیکارٹ فرینیکر یونیورسٹی گئے اور وہاں انہوں نے اپنی کتاب Meditations کا پہلا مسودہ لکھا۔ 1630 میں انہوں نے لیڈن یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔1634 میں ڈیکارٹ ہیلینا جینز کے ساتھ رشتے میں آئے اور 1935 میں ان کے یہاں ایک لڑکی فرانسن کی پیدائش ہوئی(ڈیکارٹ نے کبھی ہیلینا جینز سے شادی نہیں کی، کچھ لوگوں کا خیال ہےکہ انہوں نے شادی کی تھی مگر کسی بھی دستاویز سے یہ بات ثابت شدہ نہیں)، جیسے مسیحی مذہب کی رسومات کو پورا کرتے ہوئے ریفارمڈ کلیسیا دیونٹر میں بپتسمہ دیا گیا۔کچھ سالوں بعد کی شدید بخار کی وجہ سے فرانسن کی موت واقع ہوگئی۔ بیٹی کی موت نے ڈیکارٹ کو بڑا صدمہ دیا انہوں نے کہا ”میں نہیں مانتا کہ خود کو مرد ثابت کرنے کے لئے اپنے آنسوؤں کو چھپانا لازم ہے۔“
ڈیکارٹ نے اپنی کتاب Discourse on Method کو 1637 میں شائع کروایا، یہ کتاب جدید فلسفے کی سب سے معتبر اور اہم ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ ڈیکارٹ نے اس کتاب کو فرانسیسی زبان میں لکھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہر عقل رکھنے والا اس کتاب کو پڑھے، بشمول خواتین، تاکہ وہ سوچنا سیکھیں۔ وہ کہتے تھے کہ ہر فرد اپنی عقل سے سچ اور جھوٹ کو جانچ سکتا ہے۔ اس کتاب میں ڈیکارٹ نے تین مضامین کو شائع کیا، جس میں سائنسی حقائق کو عقلی استعمال سے واضح کیا جاسکتا تھا۔
1. Dioptrics-میں ڈیکارٹ نے روشنی کے انعطاف (Refraction of Light) کا قانون بیان کیا۔
2. Meteorology-میں قوس و قزح (Rainbow) کی وضاحت کی۔
3. Geometry-میں اپنی تجزیاتی جیومیٹری (Analytical Geometry) کا خاکہ پیش کیا۔
انہوں نے جیومیٹری اور الجبری کی مدد سے ریاضی کی ایک نئی شاخ ”تجزیاتی جیومیٹری“ ” Analytical Geometry “ کے نام سے دریافت کی، جس میں مدد سے ہم الجبری کی پیچیدگیوں کا جیومیٹری سے اور جیومیٹری کے مسائل کو الجبری کی مدد سے بآسانی حل کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ریاضی کے ذریعے سے تمام سائنسز پر لاگو ہونے والے منطقی دلائل کا ایک عالمگیر طریقہ بھی دیا، جن کا ذکر انہوں نے اپنی کتب ”Discourse on Method“ اور ”Rules for the Direction of the Mind“ میں کیا۔ انہوں نے اس طریقہ کار کے چار اصول بیان کیے۔
1. کسی بھی چیز کو اس وقت تک سچ تسلیم مت کرو جب تک کہ وہ اپنے حق میں خود واضح دلائل پیش نہ کرے۔
2. مسائل کا حل آسان ترین حصوں میں تقسیم کرکے نکالو۔
3. مسائل کو ہمیشہ آسان سے پیچیدہ حل کرنے کی کوشش کرو۔
4. ہر دلیل کی دوبارہ جانچ کرو۔
اس کے علاوہ انہوں نے فرانسوا ویٹے کے ایجاد کردہ نظام کو مزید بہتر اور آسان بنایا، جس میں معلوم عدد a, b, c,…… کو نامعلوم عداد x,y,z,… اور مربع، مکعب اوردیگر درجات کو متعارف کروایا جیسے؛ x², x³…۔ جس کی مدد سے الجبری مزید آسان ہوگئی۔
1639 میں ان پر ہنری ریگیس (جوکہ خود یوتریچٹ یونیورسٹی میں ڈیکارٹ کے نظریات کو پڑھایا کرتے تھے) کی طرف سے سخت الزام لگائے گئے، جنہوں نے زندگی کے آخری ایام تک ڈیکارٹ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔- 1648 میں ڈیکارٹ نے اپنی کتاب Letter to Voetius میں مذہبی رواداری اور فرد کے حقوق کی حمایت میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ نہ صرف مسیحیوں بلکہ ترکوں کے لئے بھی کام کررہے ہیں (جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مسلمانوں، آزاد خیالوں، بےدینوں اور ملحدیں سب کے لئے کام کر رہے ہیں) ، انہوں نے مزید کہا کہ چونکہ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں تو دونوں کو زندگی کی امید رکھنی چاہئے-
بحرحال 1941 میں ڈیکارٹ نے ”Meditations on First Philosophy“ شائع کی، جس کی اشاعت کا بنیادی مقصد خدا کے وجود اور روح کو ثابت کرنا تھا۔یہ کتاب لاطینی زبان میں لکھی اور اس میں کئی مفکرین کی تنقیدوں کے جوابات دیئے۔ اس کتاب کو فلسفہ اور سائنس دونوں میں اہم مقام حاصل ہے۔اس کتاب میں ڈیکارٹ اپنی شک کے نظریات کو متعارف کرواتے ہیں جس میں وہ ان تمام عقائد کو مسترد کرتے ہیں جن کی غلطی کا امکان ہوسکتا ہے۔یہ نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں تھا، ڈیکارٹ کا یہ نظریہ قدیم یونانی فلسفی سیکٹس ایمپریکس اور مائیکل ڈی مونتین کے شکوک پر مبنی تھا۔ڈیکارٹ نے ہر اس چیز پر شک کیا جو ظاہر ہے یا مباحث میں شامل ہے، یہاں تک کہ اس نے کہا کہ ماہرین کی رائے بھی قابل اعتبار نہیں وہ بھی غلط ہوسکتے ہیں۔اور انسان کی حس اسے گمراہ کرتی ہے اس لئے اس پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ جس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم خوابوں میں کچھ بھی دیکھ لیتے ہیں اور ہم اس چیز کا ادراک کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہم بیداری کی حالت میں ہیں یا خواب دیکھ رہے ہیں۔یا پھر دور سے کوئی گول مینار چکور نظر آسکتا ہے۔اس نے مزید کہا کہ کہیں دور ضرور ایک طاقتور اور ہوشیار شیطان انہیں دھوکا دے رہا ہے تاکہ وہ چیزوں پر شک کریں، مگر اس سب کے باوجود وہ یقین رکھتے ہیں کہ جب وہ سوچتے ہیں تو وہ موجود ہوتے ہیں۔ چاہے کوئی بھی انہیں دھوکا دے دے مگر انہیں اپنی سوچ کا ادراک ہے۔ اسی وجہ سے ڈیکارٹ نے کہا؛”Cogito, ergo sum“ یعنی ’میں سوچتا ہوں ، اس لئے میں ہوں‘۔ مختصراً ڈیکارٹ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ان کے نزدیک کم سے کم ایک چیز قابلِ یقین ہے اور وہ ہے ان کی اپنی ذات کا وجود۔مگر اس کے بعد ڈیکارٹ نے غور کیا کہ اگر وہ صرف اپنے وجود کو تسلیم کریں اور باقی ہر چیز پر شک کریں تو وہ Solipsism یعنی خود مرکزیت کے نظریے میں محدود ہوجائیں گے اس لئے انہوں نے مزید دلیل دی کہ وہ تمام خیالات جو واضح ہو اور ممتاز بھی وہ سب یقینی ہونگے۔اور ان نظریات کی بنیاد پر ڈیکارٹ نے دنیا کو دو حقیقتوں میں بانٹ دیا، یعنی ایک ذہن اور دوسرا مادی جسم۔انہوں نے مزید کہا کیونکہ ذہن کی توسیعی ممکن نہیں اور نہ ہی اسے تقسیم کیا جاسکتا ہے اس لئے ذہن کو لافانی کہنے میں کوئی حرج نہیں اور جسم تقسیم کے قابل ہے۔
ڈیکارٹ نے خدا کے حق میں دلائل دیتے ہوئے Fifth Meditation میں کہا کہ خدا ایک کامل ہستی ہے اگر خدا موجود نہ ہوتا تو وہ کامل نہ ہوتا، اس لئے خدا کا ہونا لازمی سی بات ہے۔ یہ نظریات بھی کوئی نئے نہیں تھے بلکہ قدیم منطقی سینٹ اینسلم نے اسے Ontological Arguments میں پہلے کی متعارف کروا دیا تھا، اور یہی نظریات ڈیکارٹ کے عقلی فلسفے کا مرکز بنے۔ مگر ڈیکارٹ کی اس دلیل سے ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جیسے ” Cartesian Circle “ کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ ڈیکارٹ کے فلسفے کو تسلیم کرتے ہوئے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کی بات ہے کہ ڈیکارٹ کے مطابق، خدا کا وجود اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس خدا کا ایک واضح اور ممتاز خیال ہے، لیکن ان کے واضح خیالات کی سچائی خدا کے وجود کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے انہیں خدا کے وجود کو ماننا پڑے گا۔
ابھی تک کہ علمی سفر سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈیکارٹ چاہتا تھا کہ انسان قدرت پر قابو حاصل کرے اور اس کی سمجھ میں اضافہ کرے۔ انہوں نے ”The World“ ”Dioptrics“ ،”Meteorology“ اور ”Geometry “ میں علم کو درخت اور اس کی شاخیں بیان کیں، اور ”Meditations“ میں مابعد الطبیعات کی جڑیں بیان کیں۔ اپنی حیات کے بقیہ حصے میں ڈیکارٹ نے علم جرثقیل (Mechanics)، طب اور اخلاقیات پر کام کیا۔ ڈیکارٹ نے کہا کہ تمام مادی اجسام مکینیل اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اس نے جانوروں کی لاشوں پر معائنہ کرکے دیکھایا کہ جسم کس طرح سے حرکت کرتا ہے۔جب ڈیکارٹ سے جانوروں کے بلاوجہ قتل کے متعلق معلوم کیا گیا تو اس نے کہا کیونکہ جانور روح (عقل)سے خالی ہوتے ہیں اس لئے انہیں اپنے تجربات کے لئے قتل کرنا جائز ہے۔ ڈیکارٹ نے ”L’Homme“ اور ”Treatise on the Formation of the Foetus “ میں خون کے رگوں میں گردش اور دورانِ عمل کو بھی بیان کیا۔
1644 میں ڈیکارٹ نے ”Principles of Philosophy“ شائع کی، جو ان کی طبعیات (Physics) اور مابعد الطبعیات (Meta-Physics) کا مجموعہ ہے۔ڈیکارٹ نے کہا کہ انسان جسم اور عقل کا مجموعہ ہے، جوکہ دو مختلف نوعیت کے اعضاء ہیں مگر یہ دونوں”Pineal Gland “ ”صنوبری غدود“)یعنی وہ ہڈی جو ریڑھ والے جانداروں میں پائی جاتی ہے( میں ایک ہوجاتے ہیں۔ڈیکارٹ یہ مانتا تھے کہ یہ غدود پورے جسم کے نظام پر قابض ہے اور جسم کو چلاتا ہے۔ اخلاقیات کے نظریات میں ڈیکارٹ کہتے تھے کہ انسان اپنے ذہن کے ذریعے اپنے جسم میں ہونے والے رد عمل کو تبدیل کرسکتے ہیں۔1647 میں شائع ہونے والی ”Passions of the soul“ میں ڈیکارٹ نے کہا کہ اکثر اعمال مادی وجوہات سے طے کیے جاتے ہیں، مگر انسان کی اخلاقی صلاحیت اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ ڈیکارٹ کا اخلاقی فلسفہ Jansenism اور Calvinism کے خلاف تھا، کیونکہ ان کے مطابق نجات کے لیے درکار فضل کو محنت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انسان اپنی عقل اور مرضی کے ذریعے سچائی کو پانے اور نجات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ڈیکارٹ کے نزدیک ”آزاد ارادہ انسان “خدا کی علامت ہے، اور انسانوں کی بھلائی یا برائی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اس ارادے کا کیسے استعمال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی خوبی سخاوت ہے، اور انسان جتنا زیادہ دوسروں کی بھلائی کے لیے آزادانہ طور پر عمل کرتا ہے، اتنا ہی وہ اچھا ہے۔
رینے ڈیکارٹ کی وفات
ڈیکارٹ نے 1648 تک 16 سال نیدرلینڈ میں گزارے، اور بعد میں مختصر دورے کے لئے فرانس واپس آگئے، فرانس میں واپسی کے پیچھے ڈیکارٹ کے پاس کچھ خاص وجوہات تھی جس میں سے سب سے اہم یہ تھی کہ وہ اپنی کتب جیسے ”Principle of Philosophy“،”Meditation on First Philosophy“ اور ”Objections and Replies “ کے فرانسیسی ترجمے کو اپنی نگرانی میں رکھنا چاہتے تھے۔پیرس میں ڈیکارٹ کے آخری ایام کے دوران وہاں اشرافیہ کی طرف سے جنگی سلسلہ جاری ہوگیا، جس کی وجہ تاج سے بغاوت کرنا تھی۔ ڈیکارٹ نے 17 اگست 1648 کو پیرس چھوڑ دیا، حلانکہ کچھ روز قبل ان کے قریبی دوست مرسن (Mersenne ) کی وفات ہوئی تھی۔اس کے بعد ڈیکارٹ سویڈن میں ملکہ کرسٹینا کے محل دعوت کے طور پر بلائے گئے۔ڈیکارٹ کو فروندے (Fronde) نے پیرس میں بدنام کردیا تھا، اور نیدرلینڈ میں بھی انہیں کیلونسٹ علماء کی جانب سے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
ڈیکارٹ سویڈن میں
جیسا کہ ذکر ہوا، شدید تنقید اور پریشانی کے باعث ڈیکارٹ نے پیرس چھوڑنے کا ارادہ کیا مگر اس وقت دنیا میں ان کو کئی ایسا جاننے والا موجود نہیں تھا جس پر وہ بھروسہ کرتے، انہی حالات میں ہیکٹر پیرے ڈیکارٹ کی زندگی میں فرشتہ ثابت ہوئے، وہ سویڈن میں فرانسیسی سفیر کی حیثیت سے رہائش پزیر تھے، انہوں نے سویڈن کی ملکہ کرستینا سے ڈیکارٹ کو دعوت دلوائی۔ ملکہ کی دعوت پر وہ فوراً آمادہ ہوگئے اور 1648 کے اختتام یا پھر 1649 کے ابتدائی دنوں میں ہی سویڈن پہنچے۔
سویڈن کی22 سالہ ملکہ جوکہ 1618 سے 1648 تک جاری تیس سالہ جنگ کے بعد اب یورپ کی سب سے طاقتور حکمرانوں میں سے تھی، وہ ڈیکارٹ کے سویڈن میں ہونے سے بہت خوش تھی، کیونکہ ڈیکارٹ کی صورت میں انہیں ایک بہترین مربی ملا تھا۔ وہ ڈیکارٹ کو صبح 5 بجے اُٹھا دیا کرتی تاکہ ان سے فلسفے کے سبق لے سکیں، جبکہ وہ خوب جانتی تھی کہ 53 سال بوڑھے ڈیکارٹ کو صبح دیر تک سونے کی عادت ہے۔کہتے ہیں کہ ڈیکارٹ نے ”The birth of piece “ سے پہلے ”A ballet“ کے اشعار ملکہ کے کہنے پر ہی لکھے تھے، کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ تیس سالہ جنگ کے بعد جشن ان کے کردار سے منایا جاسکے۔ڈیکارٹ نے Academy of Arts and Sciences کے قوانین لکھے اور جب وہ صبح سویرے انہیں پیش کرنے ملکہ کے پاس گئے تو انہیں سردی لگ گئی، اور اسی سردی کی وجہ سے ڈیکارٹ کومہ میں ہی چل بسے۔
ڈیکارٹ کی وفات کے بعد ان کے دستاویز کیتھولک کلیسا کے ہاتھ لگ گئے، جہاں پادریوں نے انہیں ایک مذہبی اور مقدس شخصیت بنانا شروع کردیا۔ ان کے دستاویزات میں ترمیم کی جانے لگی، اور کلیسا کی جانب سے منتخب شدہ مواد شائع کیا جانے لگا۔ آخرکار 1891 میں ایک بھاری 17 جلدوں پر مشتمل کتاب Lives of the Saints کو منظرعام پر لایا گیا۔حلانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈیکارٹ کی پوری حیات ان سوالات پر مبنی ہے کہ کیا وہ ایک ملحد شخص ہیں جو عقلی اور میکانکی اور مادی طبعیات قائم کرنے کی فکر میں ہے یا پھر وہ ایک مسیحی ہے جو مسیحیوں کی حمایت کرتا ہے۔اس تمام سوالات کے جواب دینا مشکل کام ہے ، خاص طور پر اس لئے کہ ڈیکارٹ کے دستاویزات کو کلیسا کا رنگ چڑھا دیا گیا۔ان سب کے باوجود 1667 میں کیتھولک کلیسا کی جانب سے ڈیکارٹ کے کاموں پر فیصلہ سنایا جاتا ہے اور ان کی تصنیفات اور دستاویزات کو ” Index Librorum Prohibitorum “ یعنی ”ممنوعہ کتابوں کی فہرست“ میں ڈال دیا جاتا ہے اور اسی دن پیرس میں ان کی ہڈیاں Sainte-Geneviève-du-Mont میں شاندار نمونے سے دفنائی جارہی تھی۔
اپنی زندگی کے آخری سالوں میں، ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ ”ایک وقت تھا جب وہ امید کرتے تھے کہ وہ زندگی کو ایک صدی یا اس سے زیادہ تک بڑھانے کا طریقہ سیکھ لیں گے“، لیکن پھر انہوں نے دیکھا کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کئی نسلوں کا کام درکار ہوگا؛ وہ خود تو یہاں تک نہیں پہنچے کہ ایک بخار کو بھی روک سکیں۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ ”طویل زندگی کی امید رکھنے کے بجائے انہوں نے ایک آسان راستہ ڈھونڈ لیا، یعنی زندگی سے محبت کرنا اور موت سے نہ ڈرنا“۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ”ایک حقیقی فلسفی کے لیے سکون سے مرنا آسان ہے“۔
ڈیکارٹ کی تصنیفات
1. Compendium Musicae (1618) – A short work on music theory.
2. Rules for the Direction of the Mind (Regulae ad Directionem Ingenii) – Written around 1628, published posthumously in 1701.
3. The World, or Treatise on Light (Le Monde, ou Traité de la Lumière) – Written in the early 1630s, but Descartes withdrew it from publication due to the condemnation of Galileo in 1633. It was published posthumously in 1664.
4. Treatise on Man (Traité de l'Homme) – Written around 1630, published posthumously in 1664.
5. Discourse on the Method (Discours de la méthode) – Published in 1637.
6. Geometry (La Géométrie) – Published as an appendix to Discourse on the Method in 1637.
7. Optics (La Dioptrique) – Published as an appendix to Discourse on the Method in 1637.
8. Meteorology (Les Météores) – Published as an appendix to Discourse on the Method in 1637.
9. Meditations on First Philosophy (Meditationes de Prima Philosophia) – Published in 1641.
10. Objections and Replies (Objets et Réponses) – Published with the Meditations in 1641.
11. Principles of Philosophy (Principia Philosophiae) – Published in 1644.
12. Comments on a Certain Broadsheet (Notae in Programma) – Written in 1647, a response to critics of his philosophy.
13. The Passions of the Soul (Les Passions de l'âme) – Published in 1649.
14. Description of the Human Body (Description du corps humain) – Published posthumously in 1664.
15. The Search for Truth by Natural Light (La Recherche de la Vérité par la Lumière Naturelle) – An unfinished dialogue, published posthumously in 1701.
16. Correspondence (Lettres) – A collection of letters published posthumously.
17. Private Thoughts (Cogitationes Privatae) – Notes that were not formally published but revealed Descartes' intellectual developments.
ڈیکارٹ کے مشہور اقوال
1. "Cogito, ergo sum." “I think, therefore, I am”
”میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔“
2. "The preservation of health should be the first study of one who is of any worth to oneself."
”صحت کی تحفظ کے بارے میں پہلے وہ شخص سیکھے جو خود اپنے آپ کو اہمیت دیتا ہو۔“
3. "The reading of all good books is like a conversation with the finest minds of past centuries."
”اچھی کتابوں کا مطالعہ ایسا ہے جیسے پچھلی صدیوں کے عظیم دماغوں کے ساتھ گفتگو کرنا۔“
4. "To live without philosophizing is in truth the same as keeping the eyes closed without attempting to open them."
”بغیر فلسفہ سوچے زندگی گزارنا حقیقت میں ایسے ہی ہے جیسے آنکھیں بند رکھنا اور انہیں کھولنے کی کوشش نہ کرنا۔“
5. "If you would be a real seeker after truth, it is necessary that at least once in your life you doubt, as far as possible, all things."
”اگر آپ سچ کے حقیقی متلاشی بننا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ کم از کم زندگی میں ایک بار ہر چیز پر شک کریں۔“
7. "Except our own thoughts, there is nothing absolutely in our power."
”ہماری اپنی سوچوں کے علاوہ اور کچھ بھی مکمل طور پر ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔“
8. "It is not enough to have a good mind; the main thing is to use it well."
”اچھے دماغ کا ہونا کافی نہیں ہے؛ اہم یہ ہے کہ اسے اچھے طریقے سے استعمال کیا جائے۔“