”اس چیز کو کبھی یاد مت کرو، جو تم ایک کتاب میں دیکھ سکتے ہو۔“ البرٹ آئن سٹائن
تعلیمی سلسلے کو لیکر میری زندگی میں کئی اونچ نیچ آئے ہیں، اور اس سلسلے میں، میں نے شہر بھی تبدیل کیا اور کئی شہروں میں سفر بھی کئے، تاکہ میں حقائق کو سمجھ سکوں، اور جب سے میں نے مختلف ادیان، ادب اللسان اور فلسفے کا مطالعہ شروع کیا، بہت سے دوسرے موضوعات میری نظر میں کم وقعت ہوکر رہ گئے۔ مگر کئی سالوں سے جب سے میری شعوری ارتقاء عمل میں آئی تعلیمی نظام کے بارے میں میرا نقطۂ نظر تبدیل نہیں ہوا۔
ہم نے ابتداء ہی سے ان تعلیمی اداروں کو ایک ایسے ماحول کے طور پر سمجھا ہے جہاں سیکھنے کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت ہماری سوچ سے بالکل مخالف ہے، یہ بچوں میں موجود فطری تجسس اور سیکھنے کی خواہش کو دباتے ہیں اور ذہنی غلامی کو فروغ دیتے ہیں اور اس حقیقت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں کہ ہم سب منفرد صلاحیتوں، رجحانات اور خوابوں کے حامل انفرادی انسان ہیں۔ یہ ادارے انسان کی آزادانہ سوچ کو محدود کرتے ہیں، اور تمام ہی کو یکساں معیاری امتحانات (standardized tests) سے گزارتے ہیں، اور اسی عمل کو ذہانت جانچنے کو سب سے بہترین پیمانہ سمجھتے ہیں۔ حقیقی طور پر یہ نظام مجھے کبھی سمجھ ہی نہیں آیا، اکثر میں سوچتا ہوں اور سوال اٹھاتاہوں کہ جو کچھ بھی میں نے ان اداروں سے حاصل کیا اس کا حقیقی زندگی میں کہاں اطلاق ہوگا؟ اور ابھی کچھ وقت سے میرا ذہن اس جیسے ان گنت سوالات اُٹھا رہا ہے، تاہم، میں نے اپنی تحقیق کا رُخ خالصتاً اسی طرف کردیا ہے۔ کیا ہو اگر میں آپ کو بتاؤں کہ موجودہ تعلیمی نظام کا مقصد کبھی بھی سیکھنے، تجسس، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیت کو پروان چڑھانا نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں بالکل اس کا اُلٹ تھا؟
مغربی مصنف ایلون ٹوفلر (Alvin Toffler) اپنی کتاب فیوچر شاک (Future shock) میں موجودہ نظامِ تعلیم کے حقائق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ” The American education model (as well as the system practiced here in India and around the world) …was actually copied from the 18th-century Prussian model designed to create docile subjects and factory workers. “ ترجمہ: ”امریکی تعلیمی ماڈل (جوکہ بھارت اور دنیا بھر میں رائج ہے) دراصل اٹھارویں صدی کے پروشیائی(Prussian) ماڈل کے طرز پر بنایا گیا، جسے فرمانبردار شہری اور فیکٹری ملازم پیدا کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔“
موجودہ نظامِ تعلیم بڑے پیمانے پر صنعتی دور کی ایک شاندار کاوش رہی، جس کے ذریعے صنعت کاری ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازم پیدا کئے گئے۔ اس سے ایسے لوگوں کو تیار کیا جائے جن کی دنیا مشقت، یکسانیت، شور، تنگ اور اجتماعی نظر و ضبط پر مبنی ہو، جہاں لوگ وقت کا تعین سورج یا چاند کو دیکھ کر نہ کریں بلکہ ان جدید اداروں کی گھڑیوں کو دیکھ کر کریں۔ اس کے لئے یہ تعلیمی نظام ایک ایسا حل تھا جو اپنی حقیقت میں اس نئی دنیا کی عکاسی کرتا تھا، اور ایسا بالکل بھی نہیں ہے کہ یہ نظام فوراً وجود میں آگیا، آج بھی آپ غور کریں تو آپ کو واضح طور پر اس میں سرمایہ دارانہ معاشرے کے عنصر دیکھائی دیں گے۔ مگر طلبہ (یعنی خام مال) کو اکٹھا کرکے اساتذہ (پیشہ ور مزدور) کے ذریعے اسکول (فیکٹری) میں بازار کی ضرورتوں کے لئے تیار کرنا، ایسی ساخت کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
آپ دیکھیں، تعلیم کا یہ مکمل انتظامی ڈھانچہ سرمایہ دارانہ ماڈل پر قائم ہوا۔ یہاں سرمایہ دارانہ اصولوں کے مطابق ہی نصاب کو تقسیم کیا گیا۔ بچوں کا صبح صبح اسمبلی میں جانا اور پھر مخصوص نشستوں پر بیٹھنا، گھنٹیاں وقت کی عکاسی کرتی ہیں، اور اس طرح اسکول کی یہ پوری اندرونی زندگی بالکل ایک فیکٹری کی مانند دیکھائی دیتی ہے۔ ہم اس نظامِ تعلیم میں جن چیزوں پر سب سے زیادہ تنقید کرتے ہیں، مثلاً: مشینی نظم، انفرادی حیثیت کی کمی، گروہ بندی، گریڈنگ، اساتذہ کا آمرانہ کردار، سخت نشستیں اور یکساں امتحانی سلسلہ ـــــ ان سب ہی نے اس نظام کو اپنے وقت اور مقام پر اتنا مؤثر بنایا۔
ظاہری طور پر اس فیکٹری نما تعلیمی نظام نے بچوں کو بنیادی پڑھنا، لکھنا، حساب کرنا، تایخی معلومات اور دیگر مضامین سِکھائے۔ مگر حقیقی طور پر اس نصاب کے پیچھے ایک خفیہ نصاب بھی قائم ہے، جو اس ظاہری نصاب سے کئی گنا ضروری ہے۔ وقت کی پابندی، اطاعت اور دہرائی جانے والی مشقت۔ یہ وہ بنیادی تربیتی تقاضے ہیں جس کا سرمایہ دارانہ نظام ہر تعلیمی ادارے سے تقاضا کرتا ہے۔ سرمایہ داروں کو ایسے ملازمین مطلوب ہیں جوکہ انتظامیہ کے احکامات پر بغیر کسی سوال کے عمل کریں اور دفاتر میں سخت اور دہرائی جانے والی مشقت کو کرنے کے لئے تیار ہوں۔
آپ نے اکثر دیکھا یا سنا ہوگا کہ کئی سرمایا داروں نے تعلیمی نظام پر اربوں ڈالر خرچ کردیے، اور اسی کے چلتے آپ ان کے بارے میں بہت نیک گمان اور اچھی رائے قائم کرلیتے ہیں، کیونکہ ان کے پیچھے چھپے منصوبوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ ان سرمایہ داروں میں جان ڈی راک فیلر ایک نمایاں نام رکھتے ہیں، بیسویں صدی کی ابتداء میں انہوں نے اوسطً 180 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک جنرل ایجوکیشن بورڈ قائم کیا، جس کا منشور ملک کے اسکولوں کو فنڈ فراہم کرنا تھا۔ سننے میں تو یہ بہت اچھا اقدام معلوم ہوتا ہے مگراس کے پیچھے ان کے کئی مفاد چھپے تھے۔ مگر راک فیلر نے اپنے مقاصد کا برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”میں قطعاً مفکرین کی قوم نہیں چاہتا، میں مزدوروں کی قوم چاہتا ہوں۔“ اور اسی بورڈ کے ایک رکن فریڈرک ٹی گیٹس، جوکہ راک فیلر کے مشیر خاص بھی تھے وہ بھی اس سچ کو اپنے اندر خاموش نہ رکھ سکے : ”ہم اِن لوگوں یا ان کے بچوں کو فلسفی ، عالم یا سائنسدان نہیں بنانا چاہتے، نہ ہی ہمیں مصنف، شاعر یا ادیب پیدا کرنے کی ضرورت ہے، ہم فنکار، موسیقار، وکیل، ڈاکٹر، مبلغ، یا سیاستدان نہیں چاہتے کیونکہ یہ ہمارے پاس کافی مقدار میں موجود ہیں۔بلکہ ہم انہیں ان کاموں کے لئے تیار کریں گے جو ان کے منتظر ہیں۔“
اسی طرح سے بیسویں صدی کی ابتداء میں ایک اور نام سامنا آتا ہے، اینڈریو کارنیگی، یہ بھی ایک امریکی صنعت کار، سرمایہ دار تھے انہیں اسٹیل کنگ کے لقب سے بھی جانا جاتا ہے۔ کارنیگی نے بھی بہت سا سرمایہ تعلیمی نظام کی درستگی میں خرچ کیا، اس نے ہزاروں لائبریریاں، تعلیمی ادارے قائم کیے، جہاں لوگوں کو نظم و ضبط کی پابندی پر خاص توجہ دی گئی۔ کارنیگی نے 1889 میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ”Gospel of Wealth“ میں کہا: ”دولت مند افراد کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنی دولت کو عوام پر خرچ کریں۔“ یہاں تک دیکھنے سے کارنیگی کوئی معیوب شخص معلوم نہیں ہوتے بلکہ مخیر دیکھتے ہیں مگر اسی مضمون میں وہ آگے لکھتے ہیں ”امیر طبقے کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں کی بھلائی کے لئے دولت کو کہاں اور کیسے خرچ کریں۔“ یہ سوچ دراصل پدرانہ (Paternalistic) نقطہ نظر سے متاثر ہے، جس میں سرمایہ دار عوام کی مدد کرتے ہیں لیکن طاقت اور آزادی پر مکمل طور پر قابض رہتے ہیں۔ٹھیک اسی طرح جدید تعلیمی نظام کو بھی تشکیل دیا گیا کہ لوگوں کو وسائل ضرور دیے جائیں گے لیکن اس دائرے میں جو سرمایہ دارانہ نظام کے لئے محفوظ ہو۔ اس طرح راک فیلر اور کارنیگی نے امریکی تعلیمی نظام پر نمایاں اثر ڈالا۔
یہاں تک بھی یہ بات ناقابلِ یقین معلوم ہوتی ہے، نیشنل ایجوکیشن ایسوسی ایشن امریکہ نے اپنی سالانہ نشست 1914 میں راک فیلر اور کارنیگی کی ان سرگرمیوں کو پرکھا اور ریپورٹ میں کہا ”ہم ان اداروں کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں، یہ ادارے لوگوں کے سامنے جوابدہ نہیں۔ یہ ہمارے ریاستی تعلیمی اداروں کی پالیسیوں کو قابو کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہمارے نصاب کو معیاری بنانے اور اداروں کو ایسے حالات میں گھیرنے کی کوشش کررہے ہیں جو حقیقی علمی آزادی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں، یہ ہمارے اسکولوں، اساتذہ اور یونیورسٹیوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔“ مگر اس اظہارِ تشویش کے بعد بھی تعلیمی نظام میں کوئی خاصہ فرق دیکھنے کو نہیں ملا۔
اگر آپ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اسکول جیسے ہیں ویسے کیوں ہیں تو آپ کو یہ خام خیالی اپنے ذہن سے نکالنی پڑے گی کہ یہ سائنسی بصیرت یا کسی منطقی اسباب کا نتیجہ ہے، نہیں بلکہ یہ تاریخ کی پیداوار ہے۔اس نظام تعلیمی کو صرف اور صرف تاریخ ہی کے تناظر میں سمجھا جاسکتا ہے۔ عوامی تعلیم کو یورپ میں 16ویں سے 20ویں صدی کے درمیان لازمی کرنے کی کوششیں کی گئیں، اس کو لازم قرار دینے کے بہت سے لوگ حق میں تھے کیونکہ ہر کوئی اسے اپنے مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا، کہ اسکولوں میں بچوں کو کیا سیکھایا جائے۔ سرمایہ دار ابتداء ہی سے اسکولز کو مزدوروں کے لئے بہترین ذریعہ سمجھتے تھے۔ سرمایہ داران کے لئے سب سے ضروری وقت کی پابندی، اطاعت گزاری ، بیزار کردینے والے لیکچر اور لکھنے پڑھنے کی بنیادی صلاحیتیں تھیں۔ ان سب سرمایہ داروں نے اسکول کو حقائق ڈھونڈنے والے آلے کے طور پر دیکھا۔ اور اس کا واحد طریقہ، آج بھی اور اس سے قبل بھی، زبردستی دہرائے جانے والا نصاب اور یاداشت پر مبنی امتحانات تھے۔ اگر انسانوں کو دیکھیں تو انسان فطری طور پر ایک آزادی پسند، اور تجسس سے بھری مخلوق کے طور پر دیکھائی دیتا ہے، جو ہر وقت کھیلنا ، ڈھونڈنا اور سیکھنا چاہتا ہے، مگر اسکول نے انسان کو اس فطری عمل سے دور کردیا ۔ جس طرح سے کھیتوں میں مزدوری کا انسان عادی نہیں بن سکتا، اسی طرح اسکول کا بھی کبھی عادی نہیں بن سکتا، مگر بچوں کے سرپرستوں کے لئے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام نے والدین اور دیگر سرپرستوں کی اس طرح سے ذہن سازی کی، کہ یہ خود بھی انسانوں کی آزادانہ خواہش کو بھول بیٹھے۔ جب کوئی بچہ اپنی فطرت پر عمل کرتے ہوئے اسکول جانے کا انکاری ہوتا تو والدین خود انہیں سختی اور جبر سے اسکول بھیجتے، ان کے نزدیک اسکول میں سیکھنے کے لئے بچوں کی آزادانہ مرضی کو بالکل ختم کرنا پڑے گا، اور دیکھتے ہی دیکھتے تعلیم حاصل کرنے کے لئے طرح طرح کی سزائیں عمل میں آتی گئیں، جس پر والدیں خود خوشی کا اظہار کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اسکول سے بچہ باغی نہ ہوجائے اس لئے انہیں کچھ وقت کھیلنے کے لئے بھی دیا جانے لگا، تاکہ وہ اپنے اندر پنپنے والے غصے کو نکال دیں اور باغی نہ بنیں۔ مگر اسکول کے نصاب سے کئی گنا بہتر طریقے سے اسی کھیل کود کو سیکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاسکتا تھا۔ ان اسکولوں کو خود کھیل کود الغرض ہر فطری سرگرمی کا دشمن بنایا گیا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمارے اساتذہ بارہا پڑھنے لکھنے کو کھیلنے کودنے سے زیادہ فوقیت دیا کرتے تھے، جب بھی کوئی بچہ اپنی فطری اور آزاد زندگی گزارنے کی کوشش میں نظم و ضبط کو توڑتا، تو اسکول کی جانب سے اس کے اس فطری طرز حیات کو توڑ دیا جاتا۔ اردو زبان میں مشہور مہاورہ ہے۔ ”پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب، کھیلو گے کودو گے بنو گے خراب“ آپ اس مہاورے سے انسانی ذہنیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ مہاورہ کسی سرمایہ دار کی ایجاد نہیں بلکہ کسی ادیب کسی مفکر کی ایجاد ہے۔
بیسوں صدی میں جان ویسلی (John Wesley) کی طرف سے دنیا بھر میں بشمول برصغیر ویسلیان اسکولز کا قیام کیا گیا، جن کا مقصد مغربی طرز نصاب کو فروغ دینا، سماجی اصلاح ، مذہبی تبلیغ کے لئے اسکول کا استعمال کرنا اور انگریزی تعلیم کو عام کرنا تھا۔جان ویسلی کے اسکولز کے قواعد میں ان کا قول شامل تھا:”ہمارے پاس کھیل کود کے دن نہیں ہیں، اور نہ ہی ہم کھیلنے کا وقت دیتے ہیں۔ کیونکہ جو بچہ کھیلتا ہے وہ ہمیشہ کھیلتا ہی رہتا ہے۔“ اور اس طرح دیکھتے دیکھتے یہ ادارے انسانی فطرت پر قابض ہوگئے، اور آج انہوں نے روایتی اسکولنگ کی شکل اختیار کرلی ہے، جس طرح ایک شخص اپنی زندگی کے آٹھ گھنٹے لگاتار کام کرنے پر صرف کرتا ہے ، اور اسے اجنبی نہیں معلوم ہوتا، کیونکہ اس سے قبل وہ اسی طرح کی طرز حیات کا عادی بنایا گیا۔ ایک بچہ کم از کم چھ سے آٹھ گھنٹے لگاتار اسکول میں گزارتا ہے، اس کے علاوہ، انہیں گھر کے لئے بھی اسکول کا کام دیا جاتا ہے، اور اسکول سے باہر بھی وہ اسکول کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اضافی کلاسز لیتا ہے۔ اسی طرح وقت گزرتے بچوں کی زندگیوں کو اسکول کے نصاب کے زیرِ اثر لایا گیا۔ اور اب ہمارے اس معاشرے میں جس طرح ایک بالغ شخص کو دیکھ کر عمومی طور پر یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ اس وقت اس کا تعلق کس پیشے سے ہے یا وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کیا سرگرمی انجام دے رہا ہے۔ اسی طرح اسکول جانے والے بچے اپنے اسکول کے گریڈ سے پہچانے جاتے ہیں، کہ بچہ کس اسکول میں پڑھ رہا ہے اور اس کے نتائج کس طرح کے ہیں۔
آخر میں ایلوڈ کَبربلی (Ellwood Cubberly) کا قول نقل کرنا چاہوں گا:”ہمارے تعلیمی ادارے، ہر لحاظ سے فیکٹریاں ہیں، جہاں خام مال (بچوں) سے مصنوعات بنائی جاتی ہیں تاکہ ان سے زندگی کی مختلف ضروریات پوری کرسکیں۔ اسکول کا کام ہے کہ وہ ایسی خصوصیات والی مصنوعات کو تیار کریں جو بیسویں صدی کی تہذیب کی طلب کے مطابق خصوصیات کو پورا کرسکیں۔ “
آج کی اس جدید دنیا میں جہاں ہر شعبہ ہائے حیات میں مسلسل تبدیلی اور جدت دیکھائی دیتی ہے، وہیں تعلیمی نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہی جگہ ساکت ہے، نصاب میں جدت ضرور دیکھنے کو ملتی ہے مگر ساخت اور بنیادی طریقہ بالکل نہیں بدلا۔ تعلیمی اداروں نے وہی فیکٹری ماڈل کو برقرار رکھا ہوا ہے۔جس دور کے لحاظ سے یہ نظام بنایا گیا تھا ہم اس صنعتی انقلابی دور کو ایک دہائی پیچھے چھوڑ کرانٹرنیت اور مصنوعی ذہانت کے دور میں مہارت حاصل کرچکے ہیں اور ہمارا نظام تعلیم اس سے بالکل میل نہیں کھاتا۔ ہم نے ان تعلیمی اداروں کا ظلم ایک عرصے تک برداشت کیا ہے مگر جو اب چھوٹے بچے ہیں ہمیں ان کے لئے متبادل ضرور تلاش کرنے چاہیئے۔ والدیں کو چاہئے کہ وہ اپنی اولادوں کی خود تربیت کریں، انہیں زندگی کے ضروری پہلوؤں سے آگاہی دیں،کھیل کود کے ساتھ ان کی پرورش کریں، اور اگر وقت کی قلت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکتے تو گھریلو تعلیم پر دھیان دیں، اپنے ماحول کو تبدیل کریں، بچوں میں تجسس اور خود سیکھنے کی قابلیت پیدا کریں۔ ان کے سوالوں کے بےوقعت جان کر ٹھکرا نہ دیں بلکہ ان سے گفتگو کریں، اس سے بچوں میں تنقیدی اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہونگی، اور یہی تجسس، تخلیقی صلاحیتیں انسانی فطرت کے تقاضے ہیں۔