کیا جدید نظامِ تعلیم سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل ہے؟ کیوں؟


اگر دنیا کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط معاشی ملک کی نظر سے ریاست ہائےمتحدہ امریکہ کو دیکھا جاتا ہے، اور بہت سے مؤرخین اور تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امریکی معیشت کو عالمی سطح پر سب سے زیادہ مضبوط بنانے والی قوت اس کی سرمایہ دارانہ معیشت ہے۔ مگر اگر ہم غور کریں تو امریکہ تو سب سے زیادہ مضبوط کرنے میں صرف سرمایہ داری کا ہاتھ نہیں بلکہ انفرادیت کا بھی سب سے بڑا کردار ہے، اور اگر ان دونوں کو اس ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہا جائے تو یہ بالکل غلط نہیں ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرمایہ داری ہے کیا؟ اور یہ کام کیسے کرتی ہے؟ اور کیا ہمارا نظامِ تعلیم سرمایہ دارانہ نظام کی تشکیل ہے؟
اگر سرمایہ داری کی مختصر سی تعریف کی جائے تو یہ ایک ایسا معاشی نظام ہے جو تجارت، نجی کاروبار، اور صنعتوں کی نجی ملکیت میں حکومت کی کم سے کم مداخلت میں مدد کرتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری درحقیقت کام کیسے کرتی ہے؟ اس بات کو سمجھ لینے کے بعد ہم تعلیمی میدان میں کی سرگرمیوں کو دیکھیں گے۔ سرمایہ داری کے نظریات ہماری سوچ سے بڑھ کر کام کرتے ہیں یہ فرد اور اس کے زیرِ عمل صنعتوں یا کاروبار کے درمیان تعلقات پیدا کرتی ہے، یہ تعلق بنیادی طور پر مختلف شہریوں کے درمیان مسابقت ہے۔ بہت سے لوگ ماننے ہیں کہ مختلف بازاروں میں ہونے والے مقابلے درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اہتمام ہوتا ہے، اس دعوے کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر نجکاری کو فروغ دیتی ہے۔اور اس کی وجہ سے جدت اور تخلیقی صلاحیتیں نظر آتی ہیں۔ بہت سے بازاروں میں یہ بات دیکھائی نہیں دیتی مگر آپ اس بات کی کو نمایاں طور پر کاروں، موبائل فون وغیرہ جیسی صنعت کاری میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں شدید مقابلے کے باعث ہمیں سپر سونک گاڑیاں اور بہترین ٹیکنالوجی والے موبائل فون دیکھنے کو ملتے ہیں۔
سرمایہ داری کا بنیادی اصول یہ ہے کہ پیداوار اور بازار کو اس انداز سے منظم کیا جائے کہ اس سے زیادہ سے زیاہد منافع حاصل ہوسکے ۔ ایسے میں اگر ہم تعلیم کو بھی سامایہ دارانہ منہج پر رکھ کر دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسکولز محض طالبِ علم تیار نہیں کرتے بلکہ وہ ایسے مزدور تیار کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ بازار میں کارآمد ثابت ہو۔ زیادہ تک تعلیمی نظام طلباء کی یادداشت پر زور دیتے ہیں، یا ایسا کہنا درست ہوگا کہ یادداشت کو ہی اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک پیمانے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو طلباء جتنا زیادہ اور اچھی طرح سے دیئے گئے نصاب کو یاد کرلے گا اسے انعام دیا جائے گا وگرنہ سزا سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم عام طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ طلباء کے درمیان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ایک مقابلے کی صورت اختیار کرگیا۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بہتر تعلیم اور مواقع کے لئے شدید مقابلہ پیدا ہوگیا۔
کارل مارکس اپنی تصنیف Das Kapital میں کہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیم کو مقصد محض شعور کو بیدار کرنا نہیں بلکہ ایسی افرادی قوت تیار کرنا ہے جو پیداوار اور بازار کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ اس انداز سے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکولز علم کے مراکز نہیں بلکہ یہ وہ بازار ہیں جہاں مزدوروں کو تیار کیا جاتا ہے۔ فرانسیسی سماجی ماہر پیئر بوردیو نے اپنی کتاب Reproduction in education, society and culture میں یہ دعویٰ کہا کہ جدید نظام تعلیم محض حصولِ علم کا ذریعہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسی سوچ اور ثقافت کی منتقلی کا ذریعہ ہے جس میں بالائی طبقے کے مفادات کو پورا کیا جائے۔ یعنی اعلیٰ طبقے کے بچے معیاری اداروں میں جاکر نہ صرف علم سیکھتے ہیں بلکہ سماجی روابط اور طاقت کے بہت سے وسائل حاصل کرتے ہیں، اور ادنیٰ طبقے کے بچوں کو ایک ایسے نظام کے حوالے کردیا جاتا ہے جو انہیں ایک اچھا مزدور بننے کا ہنر سکھاتے ہیں اور اسی سوچ کی وجہ سے وہ بچے ادنیٰ درجے کی ملازمتوں پر اکتفا کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اور ایسے تعلیم ایک ایسا نظام بن جاتا ہے جہاں مساوات کے بجائے طبقاتی خلیج کو مزید گہرا کیا جاتا ہے۔ ایوان ایلیچ اپنی کتاب Deschooling society میں تعلیمی اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”اسکول کو مقصد کبھی آزاد انسان تیار کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایسے فرمانبرداروں کو پیدا کرتا ہے جو معیشت کے پہیے کو بغیر کسی سوال کے چلاتے رہیں۔“
سرمایہ دارانہ نظام نے تعلیمی نظام کو بھی سرمایہ دارانہ نظام کی طرح کرنا چاہا جس کی وجہ سے بازاروں کی طرح طلباء میں بھی مقابلے کی صورت بن گئی، اور اس کا ان کی زندگیوں اور مستقبل پربہت گہرا اثر مرتب ہوا۔ اب جدید نظامِ تعلیم میں طلباء کی قابلیت اور ان کے مستقبل کا انحصار ان کے گریڈز اور حاصل کردہ نتائج پر ہے، جوکہ انہیں جدت اور تخلیقی صلاحیتوں سے روکتا ہے،کیونکہ اس کی وجہ سے باہمی تعاون اور اجتماعی مفاد جیسی چیزیں ختم ہوگئی۔ تاہم یہیں پر بات ختم نہیں ہوتی، بلکہ مزید نقصان اس وقت ہوتا ہے جب طلباء کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا جاتا ہے اور صرف وہی منتخب کیے جاتے ہیں جو امتحانات میں بہترین نمبر حاصل کرتے ہیں۔ اس کا منفی اثر اضطراب سے لے کر ذہنی دباؤ سے وابستہ نفسیاتی بیماریوں تک پہنچتا ہے، جو طلباء کی صحت پر طویل مدتی اثرات ڈالتا ہے۔
جدید تر اس سے پرانی