اصل حرکت در ساختار اسلام

 

”اجتہاد کی یہ آزادی کہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدید کی روشنی اور تجربے کے مطابق از سر نو تعمیر کریں بہت ناگزیر ہے۔“ اقبالؒ

اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات کے ساکن ہونے کے قدیم تصور کو مسترد کرتا ہے اور اس کے حرکی نظریے کو تسلیم کرتا ہے۔ وحدت کے ایک جذباتی نظام کے طور پر یہ فرد کی اہمیت کا اعتراف کرتا ہے اور خونی رشتے کو انسانی وحدت کی اساس کے طور پر رد کرتا ہے۔ خونی رشتے کی پیوند زمین سے ہوتی ہے۔ انسانی وحدت کی خالص نفسیاتی بنیاد کی تلاش اسی وقت ممکن جب ہم انسانی زندگی کے اپنی اصل میں روحانی ہونے کا ادراک حاصل کریں لے یہ نئی وفا داریوں کا ایک ایسا تخلیقی ادراک ہوگا جسے باقی رکھنے کے لیے رسوم ورواج کی احتیاج نہیں۔ اس سے انسان اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اپنے آپ کو زمینی وابستگیوں سے آزاد کر لے۔ ابتدا میں عیسائیت رہبانی نظام کی صورت میں ظاہر ہوئی جسے قسطنطین نے وحدت کے نظام میں بدلنے کی سعی کی ہے چونکہ ایسا نہ ہو سکا لہٰذا شہنشاہ جولین نے واپس روم کے پرانے دیوتاؤں کی طرف رجوع کیا ہے جن کی اس نے نئی فلسفیانہ تعبیرات کیں۔ تہذیب و تمدن کے ایک جدید مورخ نے مہذب دنیا کی اس صورت حال کا جو تاریخ کے اس سٹیچ پر اسلام کے نمودار ہونے کے وقت تھی نقشہ اس طرح کھینچا ہے:

یوں نظر آتا تھا کہ وہ عظیم تہذیب جس کی تعمیر میں چار ہزار برس لگے انتشار کے دھانے پر پہنچ گئی تھی اور انسانیت بر بریت کی اس حالت کو واپس پہنچا ہی چاہتی تھی جہاں ہر قبیلہ اور فرقہ ہر دوسرے قبیلے اور فرقے کے خون کا پیاسا تھا، جہاں نظم و نسق  کوکوئی نہ جانتا تھا، پرانے قبائلی احکام اپنی قوت کھو کر بے اثر ہو چکے تھے۔ چنانچہ پرانے انداز حکمرانی اب بے سود اور غیر موثر تھے۔ عیسائیت کے نئے قواعد وضوابط اتحاد اور تنظیم پیدا کرنے کی بجائے تقسیم در تقسیم اور بربادی کا باعث بن چکے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب آشوب اور المیے کے سوا کچھ نہ تھا۔ تہذیب اس چھتنار درخت کی طرح زوال آمادہ تھی جو کبھی پوری دنیا پر چھایا ہوا تھا اور جس کی شاخیں فنون لطیفہ، سائنس اور ادب کے سنہری پھولوں سے لدی پھندی تھیں۔ اس کا تنا عزت واحترام اور لگن کے رس کے بہہ جانے سے مردہ ہو چکا تھا۔ اس کی جڑیں اندر سے گل سڑ چکی تھیں۔ جنگ کے چھیڑوں کی وجہ سے یہ تہذیب پارہ پارہ ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی پرانے قوانین اور رسومات کی ان رسیوں سے یکجا تھی جو  کسی وقت بھی ٹوٹ سکتی تھیں۔ کیا کوئی ایسی جذبات پر مبنی ثقافت تھی جو یہاں پروان چڑھ سکے۔ اور نوع انسانی کو دوبارہ کسی اتحاد میں منسلک کر سکے اور انسانی تہذیب کو تباہی سے بچا سکے۔ لازمی بات ہے کہ یہ ثقافت کسی نئی طرز کی  طالب ہے اور خدا پر ہی زندگی کی تمام مطلق روحانی بنیادوں کا انحصار ہے۔ خدا سے وفاداری کا مطلب خود انسان کی مثالی فطرت سے وفاداری ہے۔ جیسا کہ اسلام نے سمجھا ہے زندگی کی مطلق روحانی اساس از لی ہے اور تغیر اور تنوع میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ ایک معاشرے کے اندر جو حقیقت مطلق کے اس تصور پر استوار ہوتا ہے سکون و ثبات کے دونوں عناصر میں باہم موافقت پائی جانی چاہیے۔ وہ لازمی طور پر کچھ ایسے ابدی اُصول رکھتا ہے جن پر وہ اپنی اجتماعی زندگی کو استوار کرتا ہے کیونکہ اس مسلسل تغیر پذیر دنیا میں نہ بدلنے والے اُصولوں کی وجہ سے ہمارے قدم جمے رہتے ہیں اور اکھڑ نے نہیں پاتے۔ لیکن ان ابدی اُصولوں میں سے ہم تغییر کے سارے امکانات کو ختم کر دیں گے جو قرآن کے مطابق خدا کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہے تو اس سے ایک فطرتا متحرک شے کو غیر متحرک بنانے کا رویہ سامنے آئے گا۔ یورپ کی سیاست اور سماجی علوم میں ناکامی اس مقدم الذکر اُصول کے سبب ہے۔ اور گذشتہ پانچ سو سالوں میں اسلام کی غیر حرکت پذیری موخر الذکر اصول کے سبب ہے۔ اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ اس کو عرف عام میں اجتہاد کہتے ہیں۔

اس لفظ کے لغوی معنی سعی و جہد کے ہیں۔ اسلامی قانون کی اصطلاح میں اس کا مطلب ایسی کوشش ہے جو ایک قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنے سے عبارت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس تصور کی بنیاد قرآن کی یہ آیت ہے: وہ جو ہماری طرف کوشش کریں گے ہم ان کو ان کا راستہ دکھائیں گے۔ نبی پاک ﷺ کی ایک حدیث اس سلسلے میں ہمیں زیادہ واضح مفہوم دیتی ہے۔ جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا جا رہا تھا تو آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ وہ ان معاملات کا کس طرح فیصلہ کریں گے جو ان کے سامنے پیش ہوں گے۔ حضرت معاذ نے عرض کیا کہ میں ان کے فیصلے کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ لیکن کتاب اللہ سے آپ کو کسی معاملے کے بارے میں رہنمائی نہ ملے تو کیا کریں گے؟ حضرت معاذ نے جواب دیا تو پھر میں خدا کے رسول ﷺ کی سنت پر عمل کروں گا۔ اور اگر وہاں سے بھی کچھ نہ ملا تو ؟ حضرت معاذ نے کہا تو پھر میں خود اپنی رائے سے فیصلہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ اسلامی تاریخ کا طالب علم یہ بات بہت اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام کی جغرفیائی اور سیاسی وسعت کے   ساتھ ساتھ ایک باضابطہ قانونی فکر (فقہ) کی ضرورت ناگزیر ہو گئی اور ہمارے اولین دور کے فقہا خواہ وہ عربی تھے یا غیر عربی انہوں نے لگا تار کوششیں کیں یہاں تک کہ فقہی افکار کا ایک ذخیرہ جمع ہو گیا جو ہمارے معروف مکاتب فقہ کی صورت میں سامنے آیا۔ ان فقہی مکاتب فکر نے اجتہاد کی تین منازل یا مدارج کو تسلیم کیا ہے۔

۱۔ قانون سازی کا مکمل اختیار، جو عملی طور پر آئمہ فقہ تک محدود سمجھا گیا۔

۲۔ اضافی اختیار جس میں کسی مخصوص فقہ کے مکتب کے دائرہ کار میں رہ کر عمل کیا جا سکتا ہے۔

٣۔  خصوصی اختیار جس کا تعلق کسی مخصوص معاملہ سے ہے جو آئمہ فقہا کی طرف سے بیان ہونے سے رہ گیا ہو۔

اس مقالہ میں، میں نے اپنے آپ کو اجتہاد کے پہلے درجے تک محدود رکھا ہے یعنی قانون سازی میں مکمل اختیار کے اہل سنت نظری طور پر اس درجے کے اجتہاد کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں مگر عملی طور پر فقہ کے مکاتب فکر کے قیام کے بعد سے اس کی کبھی بھی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ اجتہاد کی کامل آزادی کو یوں مشروط کر دیا گیا ہے کہ کسی فرد واحد کا ان شرائط کو پورا کرنا قریب قریب ناممکن ہے اس طرح کا رویہ ایک ایسے قانونی نظام کے پیش نظر عجیب لگتا ہے جس کا انحصار زیادہ تر قرآن پر ہو جو زندگی کے متحرک نقطہ نظر کو لازم گردانتا ہے۔ لہذا آگے بڑھنے سے

پیشتر بہت ضروری ہے کہ اس ذہنی رویے کی وجوہات کو دریافت کیا جائے جس نے اسلامی قانون کو عملاً غیر متحرک کر دیا۔ بعض یورپی مصنفین کا خیال ہے کہ اسلامی قانون کے جمود کا سبب ترک ہیں۔ یہ بالکل ہی سرسری سا نقطہ نظر ہے کیونکہ تاریخ اسلام میں فقہی مکاتب فکر ترکوں کے اثرات سے بہت پہلے مرتب ہو چکے تھے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق حقیقی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔

١۔ ہم سب اس عقلی تحریک سے اچھی طرح واقف ہیں جو عباسیوں کے ابتدائی ایام میں اسلامی البیات میں ظاہر ہوئی اور ان تلخ اختلافی مباحث سے جنہیں اس تحریک نے جنم دیا۔ مثال کے طور پر ان اختلافی مباحث میں ایک بڑا مسئلہ قدم قرآن کے روائیتی عقیدے سے متعلق تھا۔ عقلیت پسند قدم قرآن کا انکار کرتے رہے۔ اس لیے کہ ان کا خیال تھا کہ یہ بھی عیسائیوں کے قدم کلام کے پرانے نظریے کی بازگشت ہے۔ دوسری طرف قدامت پسند مفکرین، جن کی عباسی خلفاء نے عقلیت پسندوں کے نظریات کے سیاسی مضمرات کے خوف سے مکمل حمایت کی ، سوچتے تھے کہ عقلیت پسندوں کے قدم قرآن کے نظریے سے انکار کی وجہ سے مسلم معاشرے کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی۔ مثال کے طور پر نظام نے عملی طور پر احادیث کا انکار کر دیا تھا اور اس نے کھلم کھلا حضرت ابو ہریرہ کو نا قابل اعتما درادی حدیث قرار دے دیا تھا۔ چنانچہ جزوی طور پر عقلیت پسندوں کے حتمی مقاصد کے بارے میں غلط فہمی کی وجہ سے اور جزوی طور پر بعض عقلیت پسندوں کی بے مہار سوچ کی بنا پر قدامت پسند مفکرین اس تحریک کو اسلام میں افتراق و انتشار کی تحریک گردانتے تھے اور اسے اسلام کے سیاسی اور سماجی استحکام کے منافی تصور کرتے تھے۔ ان کا سب سے بڑا مقصد اسلام کی سماجی وحدت کو قائم رکھنا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ کھلا تھا اور وہ یہ کہ وہ شریعت کی مجتمع کرنے والی قوت کو باقی رکھنے پر زور دیں اور اسلام کے قانونی نظام کو جس قدر بھی ممکن ہو سخت کر دیں۔

٢۔ مسلم تصوف میں ترک دنیا کے نظریے کا آغاز اور نشو و نما بھی، جو آہستہ آہستہ غیر اسلامی عناصر کے زیر اثر پروان چڑھتا چلا گیا اور خالصتاً ایک فکری رویے تک محدود ہو کر رہ گیا، بہت حد تک اس رحجان کا ذمہ دار ہے۔ خالصتاً مذہبی نقطہ نظر سے تصوف نے اسلام کے دور اول کے علماء کے لفظی تنازعات کے خلاف ایک قسم کی بغاوت کی۔ اس سلسلے میں حضرت سفیان ثوری کی مثال دی جاسکتی ہے جو اپنے عہد کے ایک نہایت ژرف نگاہ قانون دان تھے اور ایک فقہی مکتب فکر کے قریباً بانی تھے۔ لیکن چونکہ وہ روحانیت میں بھی گہرا انہاک رکھتے تھے لہذا وہ اپنے عہد کےفقیہوں کی خشک اور بے کیف بحثوں کے سبب تصوف کی طرف زیادہ متوجہ ہو گئے۔ اپنے غور و فکر کے رخ پر جو بعد میں زیادہ نمایاں ہوا تصوف ایک آزاد رو اور عقلیت سے مربوط رویہ بن گیا۔ اس کے ظاہر و باطن میں تمیز پر اصرار نے ہر اس چیز سے بے تو جہی کا رحجان پیدا کر دیا جس کا تعلق باطن سے نہیں بلکہ ظاہر سے ہے۔ دنیا سے مکمل بے رخی کی کیفیت نے بعد کے صوفیا میں اس قدر غلبہ کیا کہ ان کی نظروں سے اسلام کے سماجی اور سیاسی پہلو اوجھل ہو گئے اور فکر و قیاس کی طرف رحجان کو ان کے ہاں اسقدر اہمیت حاصل ہوئی کہ اسلام کے بہترین دماغ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس میں جذب ہو گئے۔ اس سے مسلم ریاست اوسط درجے کے اہل دانش کے ہاتھوں میں چلی گئی اور چونکہ مسلم عوام کو رہنمائی دینے والے اعلی سطح کے دماغ اور شخصیات کم یاب ہو گئے انہوں نے محض فقہی مکاتب کے اندھے مقلد بن جانے میں عافیت محسوس کی۔

٣۔ ان وجوہ میں تیرہویں صدی کے درمیانی عرصے میں مسلمانوں کی فکری زندگی کے مرکز بغدار کی تباہی سب سے بنیادی وجہ ہے۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا دھچکا تھا۔ تا تار کی یلغار کے زمانے کے تمام معاصر تاریخ دان صرف بغداد کی ہولناک تباہی کا ہی تذکرہ نہیں کرتے بلکہ وہ دھیمے لہجے میں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ مزید انتشار و افتراق کے خوف سے جس کا ایسے سیاسی انحطاط کے زمانے میں پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے قدامت پسند مسلم مفکرین نے اپنی تمام تر توجہ ایک ہی نکتہ پر مرکوز کر دی اور وہ یہ کہ دور اول کے علمائے اسلام کے تجویز کردہ قانون شریعت کو ہر قسم کے ترمیم و اضافے سے محفوظ قرار دیتے ہوئے عوام کی سماجی زندگی کی یک رنگی کو بچایا جائے۔ سماجی نظم وضبط ان کے پیش نظر تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جزوی طور پر وہ درست تھے کیونکہ تنظیم کسی حد تک تباہی کی قوتوں کا تدارک کرتی ہے۔ مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا اور نہ ہی ہمارے عہد کے علماء اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ عوام کے مقدر کا حتمی انحصار تنظیم پر اتنا نہیں ہوتا جتنا کہ انفرادی شخصیات کی صلاحیت اور قوت پر ہوتا ہے۔ ایک ضرورت سے زیادہ منظم معاشرے میں فرد کی شخصیت مکمل طور پر کچلی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا وجود بھی باقی نہیں رہتا۔ وہ سماجی فکر کی دولت سے تو مالا مال ہو جاتا ہے مگر اس کی روح مرجھا جاتی ہے۔ لہذا گزری ہوئی تاریخ کا جھوٹا احترام اور اس کا مصنوعی احیا کسی قوم کے زوال کا علاج نہیں ہو سکتا۔ تاریخ کا فیصلہ، جس طرح عصر جدید کا ایک مصنف شگفتہ انداز میں لکھتا ہے، یہ ہے کہ وہ فرسودہ تصورات جنہیں ایک قوم نے مسترد کر دیا ہو خود اس قوم کے اندر کبھی طاقت نہیں پکڑ سکتے۔ کسی قوم میں انحطاط روکنے کے لیے ایسے افراد کی قوت ہی موثر ہو سکتی ہے جو اپنے من میں ڈوب جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ ایسے افراد ہی زندگی کو گہرے طور پر جان سکتے ہیں۔ یہی لوگ ایسے نئے معیارات کا تعین کرتے ہیں جن کی روشنی میں ہم دیکھنا شروع کرتے ہیں کہ ہمارا ماحول مکمل طور پر نا قابل تغیر نہیں اور یہ کہ اس کی تجدیدنو کی ضرورت ہے۔ یہ رحجان کہ ماضی کی تعظیم کرتے ہوئے معاشرے کو کچھ زیادہ ہی منظم کر دیا جائے جیسا کہ تیرھویں صدی اور اس کے بعد مسلمان فقہا نے کیا خود اسلام کے اپنے مزاج کے منافی ہے۔ نتیجہ ابن تیمیہ کی فکر کی صورت میں اس کے خلاف شدید رد عمل ظاہر ہوا جو اسلام کے مبلغین اور نہایت سرگرم اہل قلم میں سے تھا۔ وہ ۱۲۶۳ھ میں سقوط بغداد کے کوئی پانچ سال بعد پیدا ہوا۔

ابن تیمیہ حنبلی روایت میں پروان چڑھا۔ اپنے لیے آزادانہ اجتہاد کا دعوی کرتے ہوئے اس نے مکاتب فقہ کی قطعیت کے خلاف بغاوت کی اور اپنے اجتہاد کے آغاز کے لیے اسلام کے اولین اُصولوں کی طرف رجوع کیا۔ ظاہری مکتب فکر کے بانی ابن حزم کی طرح اس نے قیاس اور اجماع کے مطابق استدلال کرنے کے اُصول پر حنفی استدلال کو مستر د کر دیا ہے جیسا کہ پرانے فقہا نے انہیں سمجھا ہوا تھا۔ کیونکہ اس کی فکر کے مطابق اجماع ہی تمام تر تو ہم پرستی کی بنیاد ہے۔ کل جب ہم اس کے زمانے کی اخلاقی اور فکری صورت حال کو دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھا۔ لے سولہویں صدی میں جلال الدین سیوطی نے بھی اپنے لیے اجتہاد کے حق کا دعویٰ کیا اور اس میں اس خیال کا اضافہ کیا کہ ہر صدی کے آغاز میں ایک مجدد پیدا ہوتا ہے۔ سکے مگر ابن تیمیہ کی تعلیمات کا مکمل اظہار بے شمار امکانات رکھنے والی اٹھارویں صدی کی اس تحریک میں ہوا جو نجد کے صحرا سے شروع ہوئی جس کو میکڈونلڈ نے اسلام کے زوال پذیر دور کا سب سے روشن خطہ قرار دیا ہے۔ حقیقت میں بھی یہ جدید اسلام کی زندگی کی پہلی دھڑکن تھی۔ اس تحریک کی تعلیمات کے اثرات ایشیا اور افریقہ کی تمام بڑی اور جدید تحریکات میں بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر تلاش کئے جا سکتے ہیں مثلا سنوسی تحریک، پان اسلامک تحریک اور بابی تحریک جو عربی احتجاجیت کی عجمی صدائے بازگشت تھی۔ عظیم مصلح محمد بن عبدالوہاب ۱۷۰۰ء میں پیدا ہوا۔ مدینہ میں تعلیم حاصل کی۔ ایران کا بھی سفر کیا اور بالآخر پورے عالم اسلامی میں اپنی روح میں دبی ہوئی آگ کو دہکانے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ اپنی روح میں امام غزالی کے پیرو کار محمد بن تومرت کی طرح تھا نے بر بر مصلح اسلام جو مسلم سپین کے زوال کے زمانے میں ظاہر ہوا اور اسے ایک نئے ولولے سے سرشار کیا۔ تاہم ہمیں اس تحریک کے سیاسی کردار سے کوئی سروکار نہیں جو محمد علی پاشا کی فوجوں کے ہاتھوں ختم ہو گیا۔ اس میں قابل توجہ بنیادی بات یہ ہے کہ غور و فکر کی آزادی اس کی بنیادی روح ہے اگر چہ اپنے اندرون میں یہ تحریک ایک قدامت پسندانہ مزاج رکھتی تھی۔ اس نے مکاتب فقہ کی قطعیت کے خلاف بغاوت کو فروغ دیا اور شخصی حق استدلال پر بہت زور دیا۔ لیکن ماضی کی جانب اس کا رویہ تنقیدی نہیں تھا اور قانونی معاملات میں بھی زیادہ تر وہ احادیث نبوی کی طرف ہی دیکھنے کا رحجان رکھتے تھا۔

اب ترکی کی طرف نظر کیجئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اجتہاد کا تصور جو جدید فلسفیانہ نظریات کے نتیجے میں زیادہ وسیع اور موثر طور پر پیش ہوا ہے ترک قوم کے سیاسی اور مذہبی افکار میں طویل عرصے سے زیر عمل تھا۔ یہ امر سعید حلیم ثابت کے پیش کردہ محمد ن قانون کے نئے نظریے سے بالکل واضح ہے جو جدید عمرانی تصورات پر مبنی ہے۔ اگر اسلام کی نشاۃ ثانیہ ایک حقیقت ہے۔ اور میرا ایمان ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے تو ہمیں بھی ایک نہ ایک دن ترکوں کی طرح اپنے فکری ورثے کی از سر نو قدر متعین کرنا ہو گی۔ اور اگر ہم اسلام کے عظیم فکر میں کوئی طبع زاد نیا اضافہ نہیں کر سکتے تو ہمیں صحت مند قدامت پسندانہ تنقید کے ذریعے کم از کم اتنی خدمت تو کرنی چاہیے کہ ہم اسلامی دنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئی آزاد پسندی ( لبرل ازم ) کی تحریک کو روک سکیں۔

اب میں آپ کو ترکی میں مذہبی اور سیاسی فکر کے ارتقا کا کچھ تصور دیتا ہوں جس سے آپ پر ظاہر ہو گا کہ کس طرح اجتہاد کی قوت نے ملک میں سیاسی اور فکری سرگرمیوں کو متحرک کیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ترکی میں فکر کے دو انداز تھے جن کی نمائندہ جماعتیں نیشنلسٹ پارٹی اور اصلاح مذہب پارٹی تھی۔ نیشنلسٹ پارٹی کی تمام تر دلچسپی صرف ریاست سے تھی، مذہب سے اسے کوئی سروکار نہ تھا۔ ان مفکرین کے مطابق مذہب کا اپنے طور پر الگ سے کوئی کردار نہیں۔ قومی زندگی میں ریاست کا ہی بنیادی کردار ہے جو تمام دوسرے عناصر کے وظیفے اور ان کی نوعیت کا تعین کرتی ہے۔ چنانچہ وہ ریاست اور مذہب کے تعلق سے پرانے تمام تصورات کو رڈ کرتے ہوئے ان دونوں کی علیحدگی پر زور دیتے ہیں۔ اب مذہبی اور سیاسی نظام کی حیثیت سے اسلام کے بارے میں اس طرح کا نقطہ نظر قابل قبول ہو سکتا ہے اگر چہ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے کہ ریاست کا ادارہ زیادہ کلیدی حیثیت کا حامل ہے اور یہ کہ یہ اسلامی نظام کے باقی تمام تصورات پر حاوی ہے۔ اسلام میں روحانی اور مادی دو الگ الگ خطے نہیں ہیں۔ کسی عمل کی ماہیت جو بظاہر کتنی ہی سیکولر کیوں نہ ہو اس کا تعین عامل کے ذہنی رویے سے ہوگا۔ ہر عمل کا ایک نظر نہ آنے والا ذہنی پس منظر ہوتا ہے جو بالآخر اس عمل کی ماہیت کا تعین کرتا ہے۔ وہ عمل دنیوی شمار ہوگا جسے اس کے پس منظر میں زندگی کی لامتناہی کثرت سے الگ کر کے دیکھا جائے۔ اگر اس پس منظر کا لحاظ رکھا جائے تو یہ روحانی ہو گا۔ اسلام میں حقیقت ایک ہی ہے: اگر اسے ایک نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مذہب ہے اور دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ریاست ہے۔ یہ کہنا درست نہیں کہ کلیسا اور ریاست ایک ہی چیز کے دو رخ یا حقیقتیں ہیں۔ اسلام ایک واحد نا قابل تقسیم حقیقت ہے جس کا مذہب یا ریاستی نظام ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کا اپنا نقطہ نظر کیا ہے۔ یہ نکتہ بہت دور رس ہے اور اسے مکمل طور پر بیان کرنا ہمیں اعلیٰ پیمانے کی فلسفیانہ بحث میں لے جائے گا۔ یہاں صرف یہ کہنا کافی ہو گا کہ قدیم غلطی انسان کی وحدت کو دو علیحدہ اور مختلف حقیقتوں میں تقسیم کرنے سے پروان چڑھی جن میں ہم آہنگی کا ایک نقطہ بھی ہے مگر جو اپنی اصل میں ایک دوسرے سے متضاد اور متخلف ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ زمان و مکان کے حوالے سے مادہ بھی روح ہے۔ وہ وحدت جسے آپ انسان کہتے ہیں وہ جسم ہے جب آپ اسے خارجی دنیا میں عمل پیرا دیکھتے ہیں اور وہ ذہن یا روح ہے جب آپ اسے اس عمل کے مقصد اور نصب العین کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔ توحید کا جو ہر اپنے عملی تصور میں مساوات، یک جہتی اور آزادی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے ریاست ان اعلیٰ اُصولوں کو زمانی اور مکانی قوتوں میں تبدیل کرنے کی جدو جہد سے عبارت ہے یعنی اسے ایک مخصوص انسانی ادارے میں عملی صورت دینے کی خواہش کا نام ہے۔ صرف اسی اکیلے مفہوم میں اسلام میں ریاست تھیوکریسی ہے: اس مفہوم میں ہرگز نہیں کہ ریاست کا سربراہ زمین پر خدا کا کوئی نائب یا نمائندہ ہو گا جو اپنی مطلق العنان استبدادیت پر اپنی مفروضہ معصومیت کا پردہ ڈال دے۔ اسلام کے نقادوں کو یہی اہم بات نظر نہیں آتی۔ قرآن کی رو سے حقیقت مطلقہ روحانی ہے اور اس کی زندگی زمانی فعلیت   سے عبارت ہے۔ روح کو فطرت، مادیت اور دینوی امور میں ہی اپنے اظہار کے لیے مواقع ملتے ہیں۔ اس طرح یہ دنیا داری بھی اپنی ہستی کی اساس کے حوالے سے روحانی ٹھہرتی ہے۔ فکر جدید نے اسلام بلکہ در حقیقت تمام مذاہب کی جو خدمت کی ہے وہ اس تنقید کے حوالے سے ہے جو اس نے فطرتیت یا مادیت پر کی ہے یعنی یہ کہ نرا مادہ کوئی حقیقت نہیں جب تک ہم اس کی جڑوں کی روحانیت کو دریافت نہیں کر لیتے۔ نجس دنیا نام کی کوئی بھی چیز نہیں۔ مادے کی یہ تمام بے کرانی روح کی خود آگاہی کی وسعت پر مشتمل ہے اور جو کچھ بھی ہے مقدس ہے۔ نبی پاک نے اس کو نہایت خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے کہ یہ ساری زمین مسجد ہے۔ چنانچہ اسلام کے نزدیک ریاست انسانی تنظیم میں روحانیت کو بروئے عمل لانے کی ہی ایک کوشش ہے۔ مگر اس مفہوم میں کوئی بھی ریاست جس کی بنیاد محض غلبہ پر نہ ہو اور اس کا مقصد مثالی اُصولوں کو عملی جامہ پہنانا ہو وہ تھیا کر ٹیک ( حکومت الہیہ ) ہوگی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ترکی کے قوم پرستوں نے کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا تصور یورپی سیاسی افکار کی تاریخ سے لیا ہے۔ ابتدائی مسیحیت ایک سیاسی اور تمدنی وحدت کی بنیاد پر قائم نہیں تھی بلکہ ان کے ہاں دنیا کے ناپاک ہونے کے تصور پر قائم ایک راہبانہ نظام تھا جس میں تمدنی معاملات کی کوئی گنجائش نہ تھی اور جس کے اندر تمام معاملات کے سلسلے میں عملی طور پر رومی حاکمیت کی اطاعت کی جاتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب مسیحی دنیا میں ریاست وجود میں آئی تو ریاست اور کلیسا ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے جن کے درمیان اپنے اپنے اختیارات کی حدود کے تعین کا نا قابل اختتام تنازعہ تھا۔ اسلام میں اس طرح کی صورت حال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی کیونکہ اسلام نے شروع میں ہی ایک تمدنی معاشرے کی تشکیل کر لی تھی جس کے لیے قرآن نے انتہائی سادہ شرعی اصول دے دیے تھے جو رومیوں کی بارہ لوحوں کی طرح، جیسا کہ تجربے نے بعد میں ثابت کیا، تعبیرات کے حوالے سے وسعت اور ارتقاء کے بے پناہ امکانات کے حامل تھے۔ چنانچہ نیشنلسٹوں کا ریاست کے بارے میں نظر یہ گمراہ کن ہے جو ایک طرح کی ثنویت کی طرف لے جاتا ہے جو اسلام میں موجود نہیں۔ دوسری طرف اصلاح مذہب پارٹی ہے، جس کی قیادت سعید حلیم پاشا کر رہا ہے۔ بنیادی حقیقت پر اصرار کرتی ہے کہ اسلام میں تصوریت اور اثباتیت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور آزادی و حریت، مساوات اور سلامتی و یک جہتی کے متنوع ابدی تصورات کی وحدت کی حیثیت سے اس میں وطنیت کی گنجائش نہیں۔ ترکی کے وزیر اعظم کے بقول چونکہ انگریزی ریاضیات، جرمن فلکیات اور فرانسیسی کیمیا کا کوئی تصور نہیں لہذا ترک ، عرب، عجمی یا ہندی اسلام بھی نہیں ہو سکتا۔ جس طرح سائنسی حقائق کا عالمگیر کردار مختلف النوع سائنسی حقائق اور قومی ثقافتیں پیدا کرتا ہے جو اپنی کلیت میں نوع انسانی کے علم کی نمائندہ ہیں بالکل اسی طرح اسلام بھی اپنے عالمگیر کردار میں مختلف النوع قومی، اخلاقی اور سماجی نصب العین معرض وجود میں لاتا ہے۔ جدید ثقافت جو قومی انا پرستی کے اصول پر اپنی بنیاد اٹھاتی ہے اس گہری نظر رکھنے والے مصنف کے مطابق بربریت کی ہی ایک دوسری صورت ہے۔ یہ حد سے بڑھی ہوئی صنعتیت کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنی بنیادی جبلتوں اور میلانوں کی تسکین کرتا ہے۔ تاہم وہ افسردگی سے کہتا ہے کہ تاریخ کے عمل کے دوران میں اسلام کے اخلاقی اور عمرانی آدرش مقامی نوعیت کے اثرات اور مسلم اقوام کے قبل اسلامی تو ہمات کی وجہ سے رفتہ رفتہ غیر اسلامیت کی طرف مائل ہو گئے ہیں۔ آج ہمارے آدرش اسلامی ہونے کی بجائے ایرانی ، ترکی اور عربی بن کر رہ گئے ہیں۔ توحید کے اصول  کی شفاف پیشانی شرک کے دھبوں سے کم و بیش آلودہ ہو گئی ہے اور اسلام کے اخلاقی آدرشوں کا عالمگیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے۔ ہمارے سامنے اب صرف ایک ہی راہ کھلی ہے کہ ہم اسلام کے اوپر جمے ہوئے کھرنڈ کو کھرچ ڈالیں جس نے زندگی کے بارے میں اساسی طور پر حر کی نقطہ نظر کو غیر متحرک کر دیا ہے اور یوں ہم اسلام کی حریت، مساوات اور یک جہتی کی اصل صداقتوں کو بارد گر دریافت کر لیں۔ اس طرح یہ ممکن ہوگا کہ اس میں صداقتوں کی اصل سادگی اور عالمگیریت کی بنیاد پر ہم اپنے اخلاقی ، سماجی اور سیاسی نصب العینوں کی دوبارہ تعمیر کر سکیں۔ یہ ترکی کے وزیر اعظم کے تصورات ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ فکر کی جس راہ کو اس نے اپنایا ہے، وہ اپنے آہنگ میں اسلام کی روح کے مطابق ہے۔ وہ بھی اس نتیجے پر پہنچا ہے جس پر نیشنلسٹ پارٹی پہنچی ہے۔ یعنی اجتہاد کی آزادی تا کہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدید اور تجربے کی روشنی میں از سر تعمیر کر سکیں۔

 آئیے اب دیکھیں کہ قومی اسمبلی نے خلافت کے ادارے کے بارے میں اجتہاد کے اختیار کا کس طرح استعمال کیا ہے۔ اہل سنت کے قوانین (فقہ) کی رو سے امام یا خلیفہ کا تقرر قطعاً نا گزیر ہے۔ اس سلسلے میں جو پہلا سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خلافت فرد واحد تک محدود رہنی چاہیے۔ ترکوں کے اجتہاد کی رو سے یہ اسلام کی روح کے بالکل مطابق ہے کہ خلافت یا امامت افراد کی ایک جماعت یا منتخب اسمبلی کو سونپ دی جائے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں برصغیر پاک و ہند اور مصر کے علمائے اسلام اس مسئلے پر ابھی تک خاموش ہیں۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ترکوں کا موقف بالکل درست ہے اور اس کے بارے میں بحث کی بہت کم گنجائش ہے۔ جمہوری طرز حکومت نہ صرف یہ کہ اسلام کی روح کے عین مطابق ہے بلکہ یہ عالم اسلام میں ابھرنے والی نئی طاقتوں کے لحاظ سے بہت ضروری ہے۔

ترکوں کے اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے آئیے ابن خلدون سے رہنمائی حاصل کریں جو تاریخ اسلام کا پہلا تاریخ دان فلسفی ہے۔ اپنے مشہور مقدمہ میں ابن خلدون نے اسلام میں عالمی خلافت کے تصور کے بارے میں تین واضح نقطہ ہائے نظر پیش کئے ہیں۔

ا۔ عالمی امامت ایک الوہی ادارہ ہے۔ لہذا اس کا وجود نا گزیر ہے۔

۲۔ یہ مصلحت زمانہ کی پیداوار ہے۔

٣۔ اس ادارے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت ہی نہیں۔

آخری نقطه نظر خوارج نے اپنایا تھا۔ " کچھ یوں نظر آتا ہے کہ ترک پہلے نقطے سے دوسرے نقطہ پر آگئے ہیں جو معتزلہ کا نقطہ نظر تھا جو عالمی امامت کو محض مصلحت زمانہ تصور کرتے تھے۔ ترکوں کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں اپنے سیاسی افکار میں اپنے ماضی کے تجربے سے استفادہ کرنا چاہیے جو بغیر کسی شک و شبہ کے ہمیں بتاتا ہے کہ عالمی امامت کا تصور عملی طور پر نا کام ہو گیا ہے۔ یہ تصور اس وقت قابل عمل تھا جب مسلمانوں کی سلطنت متحد تھی۔ جو نہی یہ سلطنت بکھری تو خود مختار سیاسی حکومتیں وجود میں آگئیں۔ یہ تصور اب اپنی عملی افادیت کھو بیٹھا ہے اور جدید اسلام کی تنظیم میں ایک زندہ عنصر کی حیثیت نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ یہ کسی مفید مقصد کے لیے کارگر ہو یہ آزاد مسلم مملکتوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں ایک رکاوٹ بھی ہے۔ ایران خلافت سے متعلق اپنے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ترکوں سے الگ تھلگ کھڑا ہے۔ مراکش نے بھی ان سے بے تو جہی کا رویہ رکھا ہے اور عرب اپنی ذاتی خواہشوں کا اسیر رہا ہے۔ یہ سب دراڑیں اسلام کی محض ایک علامتی قوت کے لیے ہیں جو عرصہ ہوا ختم ہو چکی ہے۔ استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کیوں نہ ہم اپنی سیاسی سوچ کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔ کیا قریشیوں کے سیاسی زوال کے باعث اور عالم اسلام پر حکمرانی کی اہلیت کے فقدان کے تجربے کے پیش نظر قاضی ابوبکر باقلانی نے خلیفہ کے لیے قرشیت کی شرط کو ساقط نہیں کر دیا تھا ؟ کئی صدیاں قبل ابن خلدون جو ذاتی طور پر خلافت کے لیے قرشیت کی شرط کا قائل تھانے بھی اسی انداز میں استدلال کیا تھا۔ اس نے کہا کہ چونکہ قریش کی طاقت ختم ہو چکی ہے اس کا متبادل اس کے علاوہ کوئی نہیں کہ کسی طاقتور انسان کو اس ملک میں امام بنا لیا جائے جہاں اس کو قوت حاصل ہو۔ یوں ابن خلدون حقائق کی درشت منطق کو سمجھتے ہوئے وہ نقطہ نظر پیش کرتا ہے جسے آج کے بین الاقوامی اسلام کے حوالے سے بصیرت کی پہلی مدہم سی جھلک کہا جا سکتا ہے۔ یہی جدید ترکوں کا رویہ ہے جس کی بنیاد تحربی حقائق پر ہے نہ کہ ان فقہا کے مدرسی استدلال پر جن کی زندگی اور فکر کا تعلق ہم سے ایک مختلف زمانے سے تھا۔

میرے خیال کے مطابق یہ دلائل، اگر ان کا درست طور پر ادراک کیا جائے ، ایک بین الاقوامی نصب العین کی آفرینش کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے جو اگرچہ اسلام کا اصل جو ہر ہے اسلام کی ابتدائی صدیوں میں عرب ملوکیت نے اسے پس پشت ڈال دیا تھا یا دبا رکھا تھا۔ یہ نیا نصب العین ممتاز نیشنلسٹ شا عرضیا کے کلام میں صاف طور پر جھلکتا ہے جس نے آگسٹ کومت کے فلسفے سے جلا پا کر جدید ترکی کے موجودہ افکار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں یہاں اس کی ایک نظم کا خلاصہ پروفیسر فشر کے جرمن ترجمے سے پیش کرتا ہوں:

'اسلام کی حقیقی طور پر مؤثر سیاسی وحدت کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ممالک خود آزادی حاصل کر لیں۔ تب اپنی مجموعی صورت میں وہ اپنے آپ کو ایک خلیفہ کے تحت لے آئیں۔ کیا یہ چیز موجودہ حالات میں ممکن ہے؟۔ اگر آج نہیں تو پھر لازماً انتظار کرنا ہوگا۔ دریں اثنا چاہیے کہ خلیفہ خود اپنی اصلاح احوال کرلے اور ایک قابل عمل جدید ریاست کی بنیاد رکھے۔ بین الاقوامی دنیا میں کمزوروں سے کسی کو کوئی ہمدردی نہیں صرف طاقتور کو ہی احترام حاصل ہے۔"

ان سطور سے جدید اسلام کے رحجانات واضح طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتی کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی اُمنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت بلکہ ایک مجلس اقوام ہے کے جو مصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔

اسی شاعر کی نظم مذہب اور سائنس سے مندرجہ ذیل اقتباس عام مذہبی نقطہ نظر پر جو آج کی دنیائے اسلام میں آہستہ آہستہ اپنی صورت گری کے عمل میں ہے مزید روشنی ڈالتا ہوا دکھائی دیتا ہے:

نوع انسانی کے اولین روحانی قائد کون تھے۔ بلا کسی شک و شبہ کے وہ پیغمبر اور مقدس لوگ تھے۔ ہر دور میں مذہب نے فلسفے کی رہنمائی کی ہے۔ صرف اسی سے اخلاقیات اور فن نے روشنی پائی ہے۔ مگر پھر مذہب کمزور ہو جاتا ہے اور اپنا حقیقی ولولہ اور جوش کھو دیتا ہے۔ پاک باز لوگ ختم ہو جاتے ہیں اور روحانی سر براہی برائے نام حد تک ورثے میں فقبیوں کو مل جاتی ہے۔ فقہا کے نمایاں رہنما ستارے بھی روایات ہوتی ہیں جو مذہب کو بالجبر اپنی راہ پر لگا دیتی ہیں۔ مگر فلسفہ کہتا ہے کہ میرا رہنما ستارہ عقل واستدلال ہے۔ تم دائیں جانب چلو گے، تو میں بائیں جانب چلوں گا۔

مذہب اور فلسفہ دونوں انسانی روح کی فلاح کے دعوے دار ہیں اور دونوں اسے اپنی اپنی سمت میں کھینچتے ہیں۔ جب تگ و دو جاری ہوتی ہے تو تجربے کے بطن سے مثبت سائنس جنم لیتی ہے۔ افکار کا یہ تازہ دم قائد کہتا ہے کہ روایات تاریخ ہیں اور استدلال تاریخ کا منہاج ہے۔ دونوں کسی غیر متعینہ شے تک پہنچنے کے لیے تعبیرات کرتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں۔ مگر جس شے تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ کیا ہے؟

کیا وہ روحانیت سے معمور دل ہے۔ اگر وہ ایسا ہے تو میرے قطعی الفاظ یہ ہیں مذہب ایک مثبت سائنس ہے جس کا مقصد انسان کے دل کو روحانیت سے لبریز کرنا ہے۔"

ان سطور سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کس خوبصورتی سے شاعر انسان کے عقلی ارتقا کی تین منازل سے متعلق کومت کے خیال کو اسلام کے مذہبی فکر پر منطبق کرتا ہے یعنی البیاتی، مابعد الطبیعیاتی اور سائنسی۔ مذہب کے بارے میں شاعر کے نقطہ نظر کا ان سطور سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے رویے سے ترکی کے نظام تعلیم میں عربی کی حیثیت کیا متعین ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے۔

وہ سرزمین جہاں نماز کے لیے اذان ترکی زبان میں گونجتی ہے جہاں نماز پڑھنے والے اپنے مذہب کے مفہوم کو بھی سمجھتے نہیں ، وہ سرزمین جہاں قرآن ترکی زبان میں پڑھا جاتا ہے، جہاں چھوٹے اور بڑے سب خدا کے احکام کو مکمل طور پر سمجھ لیتے ہیں، اے ترکی کے سپوتو! یہ سرزمین تمہارے اجداد کی زمین ہے۔“

اگر مذہب کا مقصد دل کو روحانیت سے لبریز کرنا ہے تو اسے لازمی طور پر انسان کی روح میں گھر کرنا چاہیے۔ شاعر کے خیال کے مطابق یہ انسان کے باطن میں تبھی اتر سکتا ہے جب روحانی تصورات اس کی مادری زبان میں بیان کیے جائیں۔ برصغیر میں اکثر مسلمان عربی کی جگہ ترکی کی تبدیلی پر معترض ہوں گے۔ ان وجوہات کی بنا پر جن کا ذکر بعد میں آئے گا اجتہاد کے بارے میں شاعر کا یہ اجتہاد قابل اعتراض ہے۔ مگر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ جن اصلاحات کی اس نے سفارش کی ہے اس کی مثالیں اسلام کی ماضی کی تاریخ میں ناپید نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ جب محمد بن تومرت نے جو اسلامی اندلس کا مہدی کہلاتا تھا اور جو قومیت کے اعتبار سے بر بر تھا اقتدار میں آیا اور موحدین کی حکومت قائم کر لی تو اس نے ان پڑھ بر بروں کی خاطر حکم دے دیا تھا کہ قرآن کا بر بر زبان میں ترجمہ کر لیا جائے اور بر بر زبان میں ہی اسے پڑھا جائے ، اذان بھی بر بر زبان میں دی جایا کرے ہے اور تمام مذہبی اداروں کے سربراہ بر بر زبان سے آگاہی حاصل کریں۔ ایک دوسرے بند میں شاعر عورتوں کے بارے میں اپنے تصورات پیش کرتا ہے عورتوں اور مردوں کی برابری کے ضمن میں وہ اسلام کے عائلی قوانین میں فوری تبدیلی کا خواہاں تھا جس طرح کا وہ اس کے عہد میں مروج تھے۔

"عورت جو میری ماں بہن یا میری بیٹی ہے یہی ہے جو میری زندگی کی گہرائیوں سے میرے نہایت پاکیزہ جذبات کو پکارتی ہے۔ وہ میری محبوبہ بھی ہے وہ میرا سورج میرا چاند اور میرا ستارہ ہے۔ وہ مجھے زندگی کی شعریت سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ خدا کے مقدس احکام اس خوبصورت مخلوق کو کس طرح ایک قابل نفرت ہستی گردان سکتے ہیں۔ یقیناً علما سے قرآن کی تشریح و تعبیر میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔

قوم اور ریاست کی بنیاد خاندان ہے۔ جب تک عورت کی صلاحیتیں مکمل طور پر سامنے نہیں آتیں۔ قومی زندگی اُدھوری رہے گی۔ خاندان کی نشونما لازماً انصاف کے اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ لہذا تین امور میں مساوات نہایت ضروری ہے۔ طلاق میں علیحدگی میں اور وراثت میں۔ جب تک وراثت میں عورت مرد کا نصف شمار کی جائے گی اور حق ازدواج میں مرد کی ایک چوتھائی سے نہ تو خاندان کو اور نہ ملک کو تو قیر ملے گی۔ آخر ہم نے دوسرے حقوق کے لئے بھی تو انصاف کی قومی عدالتیں قائم کر رکھی ہیں۔ ان کے برعکس خاندان کو ہم نے مکاتب فقہ کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ میں بالکل نہیں جانتا کہ ہم نے عورت کو اس طرح بے یارو مددگار کیوں چھوڑ رکھا ہے۔ کیا وہ وطن کی خدمت بجا نہیں لاتی یا وہ اپنی سوئی کو کسی ایسے تیز دھار خنجر میں تبدیل کرلے جس سے وہ انقلاب برپا کرتے ہوئے ہمارے ہاتھوں سے اپنے حقوق خود چھین لے۔"

سچ تو یہ ہے کہ آج کی مسلمان اقوام میں سے صرف ترکی نے ہی عقیدہ پرستی کی خفتگی کو توڑا ہے اور خود آگاہی حاصل کی ہے۔ صرف ترک قوم نے فکری آزادی کے حق کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف اس نے تخیل سے حقیقت پسندی کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ ایک ایسا اقدام جو شدید فکری اور اخلاقی جدوجہد کا مقتضی ہے متحرک اور وسعت پذیر زندگی کی پیچیدگیاں یقینا انہیں نئے حالات کے بارے میں نئے نئے نقطہ ہائے نظر سے آشنا کرتی رہیں گی اور وہ ان اصولوں کی نوع بنوع تعبیرات کی ضرورت کا احساس کرتے رہیں گے جن میں ان لوگوں کی دلچسپی ابھی تک محض علمی سطح کی ہے جنہوں نے وسعت روحانی کی مسرت کا تجربہ ابھی تک حاصل نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ انگریز مفکر تھامس ہابس تھا جس نے یہ گہرا مشاہدہ کیا ہے کہ ایک جیسے افکار اور حساسات کا تواتر، احساسات اور افکار کے یکسر عدم وجود کی طرف دلالت کرتا ہے۔ آج کے اکثر مسلم ممالک کی بھی تقریباً یہی حالت ہے۔ وہ میکانکی انداز میں پرانی اقدار سے چمٹے ہوئے ہیں جبکہ ترک نئی اقدار تخلیق کر رہے ہیں۔ وہ عظیم تجربات سے گزرے ہیں جو ان کے اندرون ذات کو ان پر منکشف کر رہا ہے۔ ان کے ہاں زندگی نے جو حرکت شروع کر دی ہے۔ وہ تغیر پذیراور وسعت پذیر ہے اور نئی خواہشوں کو جنم دے رہی ہے۔ اس سے نئی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور ان کے حل کی نئی تدابیر اور نئی تعبیرات سامنے آ رہی ہیں۔ جو سوال آج انہیں در پیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقیناً اس کا جواب اثبات میں ہو گا بشرطیکہ ہم اس سوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کے ہاں ملتی ہے، جو اسلام میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی: خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔

ہم جدید اسلام میں حریت فکر اور آزاد خیالی کی تحریک کو دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں، مگر اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اسلام میں آزاد خیالی کا ظہور تاریخ اسلام کا ایک نازک لمحہ بھی ہے۔ لبرل ازم میں یہ رحجان موجود ہوتا ہے کہ یہ انتشار کی قوتوں کو فروغ دے۔ اور نسلیت کا تصور بھی جو پہلے سے کہیں زیادہ ایک قوت بن کر جدید اسلام میں ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے ممکن ہے کہ بالآخر اس وسیع تر انسانی نقطہ نظر کو معدوم کر دے جو مسلم قوم نے اپنے دین سے حاصل کیا ہے۔ مزید اس بات کا بھی امکان ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی مصلح لبرل ازم کے نہ رکنے والے جوش میں اصلاحات کی مناسب حدود کو بھی پار کر جائیں۔ آج ہم بھی اس دور سے گزر رہے ہیں جس دور سے یورپ میں پروٹسٹنٹ انقلابی گزرے تھے اور مارٹن لوتھر کی اس تحریک کے عروج اور نتائج میں ہمارے لیے جو سبق ہے اس سے ہمیں نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ تاریخ کے ایک محتاط مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اصلاح کلیسا اپنی اصل میں ایک سیاسی تحریک تھی اور اس کا قطعی انجام یورپ میں یہ ہوا کہ قومی اخلاقیات نے آہستہ اہستہ مسیحیت کی عالمگیر اخلاقیات کی جگہ لے لی۔ ہم یورپ کی جنگ عظیم اوّل میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں جو ان دونوں متصادم نظامات میں مفاہمت پیدا کرنے کی بجائے انہیں دونا قابل برداشت انتہاؤں پر لے گئی۔ اب یہ دنیائے اسلام کے رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ یورپ میں جو ساپر کچھ ہوا ہے اس کے حقیقی معنی سے آگاہی حاصل کریں اور ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور نظام مدنیت اسلام کے مقاصد کا پورا ادراک رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔

میں نے آپ کے سامنے اسلام کے دور جدید میں اجتہاد کی تاریخ اور اس کے طریق کار سے متعلق کچھ تصورات پیش کئے ہیں۔ اب میں اس طرف آتا ہوں کہ کیا اسلامی قانون کی تاریخ اور اس کا ڈھانچہ ایسے امکانات کا جواز پیش کرتے ہیں کہ اسلام کے اصولوں کی تازہ تعبیرات کی جاسکیں۔ دوسرے الفاظ میں، جو سوال میں اُٹھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کیا اسلامی فقہ میں ارتقا کی کوئی صلاحیت موجود ہے۔ جرمنی کی بون یونیورسٹی میں لسانیات کے پروفیسر ہارٹن نے اسلامی فلسفے اور الہیات کے حوالے سے بالکل اسی قسم کا سوال اٹھایا ہے۔ مسلمان مفکرین کے خالصتاً مذہبی افکار کا تجزیہ کرتے ہوئے اس نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ اسلامی تاریخ کی یوں تشریح کی جاسکتی ہے کہ یہ دو الگ الگ قوتوں یعنی ایک طرف آریائی علم و ثقافت اور دوسری طرف سامی مذہب کے درمیان بتدریج تو افق ، ہم آہنگی اور تعاون سے عبارت ہے۔ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے مذہبی زاویہ نگاہ کو اس ثقافت کے اجزائے ترکیبی سے ہم آہنگ رکھا ہے جو اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے لوگوں میں موجود رہے ہیں۔ پروفیسر ہارٹن کے بقول آٹھ سو سے گیارہ سوعیسوی تک مسلم الہیات کے کم از کم ایک سو نظام ہائے فکر مسلمانوں میں پیدا ہوئے۔ یہ حقیقت اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہے کہ اسلامی فکر میں لچک کی گنجائش موجود ہے اور یہ کہ ہمارے ابتدائی مفکرین بھی انتھک لگن سے کام کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ مسلم فکر اور ادبیات کے عمیق مطالعے کے انکشافات سے یہ یورپی مستشرق جو اس وقت زندہ ہے (اقبال کے زمانے کی بات ہے ) مندرجہ ذیل نتیجے تک پہنچا:

اسلام کی روح اس قدر وسیع ہے کہ عملی طور پر اس کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ لادینی افکار کے استثنیٰ کے ساتھ یہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے تمام قابل قبول افکار کو جذب کر لیتی ہے اور پھر انہیں ارتقا کی اپنی ایک مخصوص جہت دیتی ہے

اسلام کی جذب وقبول کی صلاحیت کا قانون کے دائرے میں زیادہ واضح اظہار ہوا ہے۔ اسلام کا ایک ولندیزی نقاد پروفیسر ہر گرونژے کہتا ہے :

جب ہم محمد ن لاء ( اسلامی قانون ) کے ارتقا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف تو ہر عہد کے فقہا معمولی سے معمولی بات پر ایک دوسرے کی مذمت کرتے ہوئے تکفیر کر دیتے ہیں اور دوسری طرف وہی لوگ ایک عظیم تر مقصد کے حصول کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اسلاف فقہا کے اسی قسم کے باہمی اختلافات کو دور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

یورپ کے جدید نقادوں کے ان نقطہ ہائے نظر سے بالکل واضح ہے کہ ہمارے فقہا کے قدامت پسندانہ رویے کے باوجود نئی زندگی کی طرف رجوع کرنے کے ساتھ ہی اسلام کی باطنی ہمہ گیری اپنے آپ کو منوا کر رہے گی۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کے وسیع فقہی ادب کے گہرے مطالعے سے جدید نقاد اپنی سطحی رائے سے یقیناً نجات پالیں گے کہ اسلام کا قانون ساکن ہے اور ارتقا کی اہلیت نہیں رکھتا۔ بد قسمتی سے اس ملک کے قدامت پسند مسلم عوام ابھی تک فقہ پر تنقیدی بحث کے لیے تیار نہیں۔ اگر یہ بحث چھڑ جائے تو زیادہ تر عوام کی ناراضی کا  باعث بنے گی اور اس سے فرقہ وارانہ تنازعات جنم لیں گے۔ تاہم اس وقت میں آپ کے سامنے اس موضوع پر کچھ اہم نکات پیش کروں گا۔

سب سے پہلے ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی ج نشین رکھنی چاہیے کہ ابتدائی دور سے لے کر عباسیہ کے عہد تک سوائے قرآن حکیم کے اسلام کا کوئی لکھا ہوا قانون عملاً موجود نہ تھا۔ دوسرے یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ پہلی صدی کے نصف سے لیکر چوتھی صدی ہجری کے آغاز تک اسلام میں فقہ وقانون کے کم از کم انہیں مکاتب کا ظہور ہوا۔ صرف یہی حقیقت یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ تہذیب و تمدن کی بڑھتی ہوئی ضروریات سے نمٹنے کے لیے ہمارے دور اول کے فقہا کس طرح کام کرتے تھے۔ فتوحات کی توسیع کے ساتھ ساتھ نتيجةً اسلام کے نقطہ نظر میں بھی وسعت آگئی۔ چنانچہ اولیں فقہا کو وسعت نظر سے چیزوں کو لینا پڑتا تھا اور مقامی لوگوں کی زندگی کے حالات اور ان نئے لوگوں کی عادات کا بھی مطالعہ کرنا پڑتا تھا جو دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے۔ معاصر سماجی اور سیاسی تاریخ کی روشنی میں فقہ کے مختلف مکاتب کے محتاط مطالعے سے یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ وہ تعبیر و تاویل کی کوششوں میں رفتہ رفتہ استخراجی رویے کی بجائے استقرائی رویہ اختیار کرتے چلے گئے۔

جب ہم اسلامی قانون کے چار تسلیم شدہ مآخذ کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے مسلم فقہی مکاتب فکر کا مفروضہ جمود اور مزید اجتہاد کے امکانات اور ارتقا کا معاملہ واضح ہو جاتا ہے۔ آیئے یہاں ان مآخذ فقہ اسلامی کا مختصر سا جائزہ لیں۔

الف۔ قرآن حکیم۔ قرآن حکیم اسلامی قانون کا سب سے بنیادی ماخذ ہے۔ تاہم قرآن حکیم قانون کا کوئی ضابطہ نہیں۔ اس کا بنیادی مقصد جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، خدا اور کائنات کے ساتھ انسان کے تعلق کا اعلیٰ شعور بیدار کرنا ہے۔ اسے اس میں شک نہیں کہ قرآن نے چند عام بنیادی اُصولوں اور قانونی نوعیت کے قواعد کا ذکر کیا ہے، بالخصوص جن کا تعلق خاندان سے ہے جس پر بالآخر سماجی زندگی کی اساس ہے۔ مگر یہ قوانین وحی کا حصہ کیوں بنے، جبکہ اس کا مقصد اولی انسان کی اعلیٰ ترین زندگی کی تعمیر ہے۔ اس سوال کا جواب عیسائیت کی تاریخ نے دے دیا ہے جس کا ظہور یہودیت کی قانون پرستی کے خلاف ایک مضبوط رد عمل کے طور پر ہوا۔ دنیا سے بے رغبتی کو اپنا آئیڈیل بنا کر یہ بلا شبہ زندگی کو روحانی بنانے میں تو کامیاب ہو گئی مگر اس کی انفرادیت پسندی سماجی تعلقات کی پیچیدگیوں میں کہیں بھی روحانی اقدار کی موجودگی کا ادراک نہ کرسکی۔ ہے نو مین اپنی کتاب ”مذہبی مکتوب میں قدیم عیسائیت کے بارے میں رقم طراز ہے کہ اس نے ریاست کے قانون تنظیم اور پیداوار سے متعلق کسی قسم کی اقدار وابستہ نہیں کیں۔ یہ انسانی معاشرے کے حالات کو درخور اعتنا بالکل نہیں سمجھتی۔ اس سے نو مین یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہمیں یا تو ریاست کے بغیر رہنے کی جرات اپنانا ہوگی اور یوں ہمیں جان بوجھ کر خود کو انار کی کے حوالے کرنا ہوگا یا ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا اپنے مذہبی عقائد سے الگ کچھ سیاسی عقائد بھی اپنا لئے جائیں۔ چنانچہ قرآن یہ ضروری سمجھتا ہے کہ مذہب اور ریاست، اخلاقیات اور سیاسیات کو وحی سے ملا کر رکھے جس طرح افلاطون نے اپنی کتاب ”جمہوریہ میں کیا ہے۔

اس سلسلے میں جو نکتہ سب سے زیادہ ذہن نشین رکھنے کے قابل ہے وہ قرآن کے زاویہ نگاہ کا حر کی ہونا ہے۔ میں اس کے مآخذ اور تاریخ پر پہلے ہی سیر حاصل بحث کر چکا ہوں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اس قسم کا نقطہ نظر رکھنے والی اسلام کی مقدس کتاب ارتقا کے تصور کے خلاف نہیں ہو سکتی۔ واحد چیز جو ہمیں نہیں بھولنی چاہیے وہ یہ کہ زندگی محض تغیر نہیں۔ اس کے اندر تحفظ اور ثبات کے عناصر بھی موجود ہیں۔ جب انسان اپنی تخلیقی سرگرمیوں سے بہرہ یاب ہو رہا ہوتا ہے اور اپنی توانائیاں زندگی کے نت نئے مناظر کی دریافت میں صرف کر رہا ہوتا ہے تو خود اپنی دریافت کے اس عمل میں بے چینی محسوس کرتا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے اپنے ماضی کی طرف لازمی طور پر مڑ کر دیکھتا ہے۔ وہ اپنی باطنی وسعتوں کا سامنا کرتے ہوئے کسی قدر خوف محسوس کرتا ہے۔ آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے انسان کی روح ان قوتوں کا دباؤ محسوس کرتی ہے جو اس کے مخالف سمت میں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ اس حقیقت کو بیان کرنے کا دوسرا انداز ہے کہ زندگی اپنے ہی ماضی کے دباؤ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور یہ کہ سماجی زندگی کے کسی بھی نظریے کی رو سے قدامت پسندی کی قوتوں کی قدر اور ان کے عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن کی بنیادی تعلیمات کی اسی بصیرت کی روشنی میں جدید عقلیت کو ہمارے موجودہ اداروں کا جائزہ لینا چاہیے۔ کوئی بھی قوم اپنے ماضی کو یکسر فراموش نہیں کر سکتی کیونکہ یہ ماضی ہی ہے جو انہیں ذاتی شناخت دیتا ہے۔ اور اسلامی طرز کے معاشرے میں پرانے ا ، اداروں کو از سر نو مرتب کرنے کا مسئلہ اور بھی زیادہ نازک ہے۔ اس سلسلے میں ایک مصلح کی ذمہ داری نہایت سنجیدہ ہے۔ اسلام اپنی ساخت اور کردار میں علاقائیت پسند نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کے ذریعے متحارب نسلوں کے باہمی اشتراک سے انسانیت کا ایک حتمی ، کامل اور مثالی نمونہ پیش کرے اور پھر ان مجموعہ توانائیوں کو ایک ایسی قوم میں تحویل کر دے جس کا اپنا شعور ذات ہو۔ اس کام کی تکمیل کوئی آسان بات نہیں تھی۔ پھر بھی اسلام نے ان اداروں کے ذریعے جن کی تاسیس میں بڑی حکمت سے کام لیا گیا تھا کافی حد تک کامیابی سے اپنے مختلف خصائل رکھنے والے عوام میں ایک اجتماعی ارادہ اور شعور پیدا کر دیا ہے۔ ایسے سماج کے ارتقاء میں، حتی کہ کھانے پینے کے سماجی طور پر بے ضرر قواعد میں بھی ، حلال و حرام کا غیر متبدل ہونا بھی بجائے خود ایک زندگی بخش قدر ہے کیونکہ یہ معاشرے کو مخصوص داخلیت سے بہرہ مند کرتی ہے۔ مزید برآں یہ داخلی اور خارجی ہم آہنگی پیدا کر کے ان قوتوں کی مزاحمت کرتی ہیں جو مختلف خصائل کے مخلوط معاشرے میں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے نقادوں کو چاہیے کہ تنقید سے پہلے وہ اسلام میں وجود پذیر ہونے والے اس سماجی تجربے کی اہمیت کے بارے میں ایک واضح بصیرت حاصل کر لیں۔ ان کی ساخت پر غور کرتے ہوئے انہیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ ان سے اس یا اس ملک کو کیا فائدے حاصل ہوں گے بلکہ انہیں ان وسیع مقاصد کے حوالے سے دیکھیں جو بطور کل نوع انسانی کی زندگی میں بتدریج                کام کرتے نظر آتے ہیں۔

اب قرآن کے قانونی اُصولوں کے بنیادی ڈھانچے کی طرف نظر دوڑائیں تو یہ بالکل واضح ہے کہ ان میں انسانی فکر اور قانون سازی کے عمل کی گنجائش کا نہ ہونا تو ایک طرف ان میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ از خود انسانی فکر کو برانگیخت کرتے ہیں۔ ہمارے ابتدائی دور کے فقہا نے زیادہ تر اسی ڈھانچے سے رشتہ قائم کرتے ہوئے مختلف نظام وضع کئے۔ اور تاریخ اسلام کے طلباء بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سماجی اور سیاسی قوت کے طور پر اسلام کی نصف کے قریب فتوحات انہی فقہا کی قانونی ذہانت کا نتیجہ تھیں۔ وان کریمر کہتا ہے کہ رومنوں کے بعد سوائے عربوں کے دنیا کی کوئی قوم یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کا قانونی نظام اسقدر احتیاط کے ساتھ بنا ہے۔ مگر آخر کار اپنی تمام تر جامعیت کے باوجود یہ فقہی نظام انفرادی تعبیرات پر ہی تو مشتمل ہیں۔ لہذا یہ کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ ہر طرح سے حتمی اور قطعی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ علمائے اسلام مکاتب فقہ اسلامی کو حتمی گردانتے ہیں، اگر چہ انہوں نے نظری طور پر مکمل اجتہاد کے امکان سے کبھی انکار بھی نہیں کیا۔ میں نے وہ تمام وجوہات بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو میری رائے میں اجتہاد کے بارے میں علما کے اس رویے کا باعث بنیں۔ لیکن اب چونکہ صورت حال بدل چکی ہے اور عالم اسلام کو ان نئی قوتوں کی طرف سے آج نئے مسائل وحوادث کا سامنا ہے جو انسانی فکر کے ہمہ جہت اور غیر معمولی ارتقا کی آفریدہ ہیں لہذا مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس طرح کا رویہ اپنائے رکھیں۔ کیا ہمارے آئمہ فقہ نے اپنے استدلال اور تعبیرات کے لئے قطعیت کا کبھی کوئی دعوی کیا تھا ؟ بالکل نہیں۔ موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعوی ہے کہ اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلام کے بنیادی اصولوں کی از سر نو تعبیرات ہونی چاہئیں میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے خود اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر نسل کو اپنے اجداد کی رہنمائی میں انہیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔

میرے خیال میں یہاں آپ مجھے ترک شاعر ضیا گو کلپ کی طرف متوجہ کریں گے جس کا اوپر میں نے حوالہ دیا ہے اور پوچھیں گے کہ کیا عورتوں اور مردوں کی برابری کا مطالبہ جو وہ طلاق، خلع اور وراثت کے حوالے سے کرتا ہے اسلام کے عائلی نظام میں ممکن ہے؟ میں بالکل نہیں جانتا کہ آیا ترکی میں عورتوں کی بیداری نے واقعہ ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس سے بنیادی اُصولوں کی نئی تعبیرات کے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوا جا سکتا۔ پنجاب میں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کچھ ایسے  اقعات ضرور رونما ہوئے ہیں جن میں مسلمان خواتین کو اپنے ناپسندیدہ خاوندوں سے جان چھڑانے کے لیے ارتداد کی راہ اختیار کرنا پڑی۔  اسلام جیسے تبلیغی مذہب کے لیے اپنے مقصد سے دوری کی اس سے زیادہ بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ انداس کا عظیم فقیہ امام شاطبی اپنی کتاب ”الموافقات“ میں لکھتا ہے کہ اسلامی قانون کا مدعا پانچ چیزوں کی حفاظت کرنا ہے۔ دین، عقل، نفس، مال اور نسل۔ ہے اس معیار کو اپناتے ہوئے میں پوچھنا چاہوں گا کہ فقہ کی معروف کتاب ہدایہ میں ارتداد سے متعلق جو اُصول بیان کیے گئے ہیں کیا وہ اس ملک میں دین کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ اسے برصغیر کے مسلمانوں کی سخت ترین قدامت پسندی کے پیش نظر برصغیر کے حج صاحبان فقہ کی معروف کتابوں تک ہی خود کو محدود رکھنے پر مجبور ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ تو بدل رہے ہیں لیکن قانون جامد اور ساکن نظر آتا ہے۔

ترک شاعر کے مطالبات کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ اسے اسلام کے عائلی قوانین کے بارے میں کوئی زیادہ علم نہیں اور نہ ہی وہ قرآن کے قانون وراثت کی معاشی معنویت کو سمجھتا ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے شادی ایک سماجی معاہدہ ہے۔ سے بیوی اپنی شادی کے موقع پر یہ اختیار رکھتی ہے کہ وہ طلاق کا حق کچھ بیان کردہ شرائط پر اپنے پاس بھی رکھے اور یوں اپنے خاوند کے ساتھ حق طلاق کا مساوی درجہ حاصل کرلے۔ وراثت کے قانون میں اس شاعر کی مجوزہ اصلاحات غلط فہمی پر بنی ہیں۔ وراثت کے حق میں قانونی حصوں میں عدم مساوات سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ اس میں عورت پر مرد کو کوئی فوقیت دی گئی ہے کیونکہ ایسا مفروضہ اسلام کی روح کے منافی ہے۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (۲:۲۲۸)

اور عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں۔

وراثت میں بیٹی کا حق کسی کمتر حیثیت کی وجہ سے متعین نہیں کیا گیا بلکہ اس کے معاشی مواقع اور اس سماجی تشکیل میں اس کے مقام کے پیش نظر مقرر ہوا ہے جس کا وہ لازمی حصہ ہے۔ علاوہ ازیں شاعر کے خود اپنے نظریہ سماج کے حوالے سے بھی وراثت کے اصول کو تقسیم دولت سے الگ تھلگ جزو کے طور پر نہیں لینا چاہیے، بلکہ ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والے مختلف اجزا میں سے ایک کی حیثیت میں لینا چاہیے۔ مسلم قانون کے مطابق بیٹی کو اس کی شادی کے موقع پر باپ اور خاوند کی طرف سے ملنے والی جائیداد کا مکمل مالک تسلیم کیا جاتا ہے اور اسے مہر کی رقم چاہے، وہ معجل ہو یا غیر معجل ، اپنے تصرف میں رکھنے کا حق حاصل ہے اور اس سلسلے میں  وہ اس وقت تک اپنے شوہر کی پوری جائیداد پر قبضہ رکھ سکتی ہے جب تک اسے اس کی ادائیگی نہ ہو جائے۔ ان مراعات کے ساتھ ساتھ بیوی کے تمام عمر کے نان نفقہ کی ذمہ داری اس کے خاوند پر ہے۔ اب اگر آپ اس نقطہ نظر سے وراثت کے اُصول کو دیکھیں تو آپ محسوس کریں گے کہ بیٹیوں اور بیٹوں کی معاشی صورت حال کے بارے میں مادی طور پر کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وراثت کے اُصول میں بیٹے اور بیٹی کے قانونی حصوں میں بظاہر نظر آنے والی عدم مساوات میں ہی ترک شاعر کی طرف سے طلب کی جانے والی مساوات کی وجہ جواز ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وراثت کے ان اصولوں پر، جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور جنہیں وان کریمر اسلامی قانون کی نہایت اچھوتی شاخ گردانتا ہے، مسلم قانون دانوں کی مکمل توجہ نہیں پڑی، حالانکہ وہ اس کے پوری طرح حقدار تھے۔ جدید سماج کی تلخ ترین طبقاتی کشمکش کے پیش نظر ہمیں سوچنا چاہیے۔ جدید معاشی زندگی میں ناگزیر انقلاب کے پیش نظر اگر ہم اپنے قوانین کا مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ ہم بنیادی اصولوں کے ایسے پہلو دریافت کر لیں جو ابھی تک منکشف نہیں ہوئے اور جن کی تفصیلات کے ادراک سے ان اصولوں کی حکمت پر ہمارا ایمان پختہ ہو جائے۔

(ب) حدیث ـــــــــــ اسلامی قانون کا دوسرا بڑا ماخذ۔ رسول پاک ﷺ کی احادیث ہیں جو قدیم اور جدید دونوں زمانوں میں مباحث کا ایک بڑا موضوع رہی ہیں۔ جدید نقادوں میں سے پروفیسر گولڈ زہیر نے انہیں تاریخی تنقید کے جدید اصولوں کی روشنی میں تحقیقی تجزیے کا موضوع بنایا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ تمام ساقط الاعتبار ہیں۔ ایک اور یورپی مصنف احادیث کی صحت کے تعین کے سلسلے میں مسلمان حکماء کے طریق کار کا تجزیہ کرنے کے بعد اور نظریاتی اعتبار سے غلطی کے امکانات کی نشاندہی کرنے کے بعد مندرجہ ذیل نتیجے پر پہنچا ہے:

نتیجے کے طور پر یہ کہا جانا چاہیے کہ زیر غور مباحث محض نظری امکانات کو پیش کرتے ہیں اور یہ سوال کہ کیوں اور کیسے یہ امکانات واقعی حقائق بنے یہ عموماً اس سے متعلق ہے کہ موجود صورت حال نے کس حد تک انہیں یہ ترغیب دی کہ ان امکانات کو استعمال میں لایا جائے۔ بے شک مقابلتاً ایسے امکانات بہت کم تھے جنہوں نے سنت کے بہت ہی محدود حصے پر اثر ڈالا۔ لہذا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ مسلمانوں میں احادیث کے جو مجموعے قابل اعتبار گردانے گئے وہ مسلمانوں کے عروج اور ابتدائی نشو وارتقا کے صحیح ریکارڈ پر مبنی ہیں۔ ( محمدن تھیوریز آف فنانس )

تاہم جہاں تک ہمارے موجودہ مقاصد کا تعلق ہے ہمیں خالصتاً قانونی اہمیت کی حامل احادیث کو ان احادیث سے الگ متشخص کرنا ہوگا جو قانونی اہمیت کی مالک نہیں۔ اول الذکر کے حوالے سے یہ اہم سوال ابھرتا ہے کہ وہ کہاں تک عرب کی قبل از اسلام روایات پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض کو جوں کا توں رکھا گیا اور بعض کو پیغمبر اسلام ﷺ نے تبدیلی کے بعد باقی رکھا۔ یہ دریافت بہت مشکل ہے، کیونکہ احادیث کے اولین لکھنے والے قبل اسلام کی روایات کو ہمیشہ بیان نہیں کرتے اور نہ ہی یہ دریافت کرنا ممکن ہے کہ جن رسوم و رواج کو آنحضرت ﷺ کی صریح یا خاموش منظوری حاصل تھی کیا وہ اپنے اطلاق میں عالمگیر ہیں۔ اس نکتے پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی بصیرت افروز بحث کی ہے۔ میں یہاں ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ پیش کرتا ہوں: پیغمبر کا منہاج تعلیم یہ ہے کہ جو قانون یا شریعت بطور پیغمبر ان پر نازل ہوتی ہے وہ خصوصی طور پر ان لوگوں کی عادات، طور طریقوں اور ان کی شخصیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھیجی جاتی ہے جن میں کہ وہ پیغمبر مبعوث کیا جاتا ہے۔ وہ پیغمبر جن کا مقصد و مدعا یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمہ گیر اُصولوں کی تبلیغ کریں وہ نہ تو مختلف اقوام کے لیے مختلف اُصولوں کو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اُصولوں کی دریافت کا کام خودان پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کا منہاج یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک مخصوص قوم کی تربیت کرتے ہیں اور انہیں عالمگیر شریعت کی تعمیر کے لیے مرکز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ان اصولوں پر زور دینے کی تاکید کرتے ہیں جو تمام نوع انسانی کی سماجی زندگی میں کارفرما ہوتے ہیں اور ان اصولوں کا اطلاق ان کے سامنے فوری طور پر موجود لوگوں کی مخصوص عادات و اطوار کی روشنی میں ٹھوس معاملات پر کرتے ہیں۔ ان شرعی اقدار ( احکام ) کو جوان کے عہد سے مخصوص لوگوں پر اطلاق کے نتیجے میں (خاص طور پر وہ اُصول جن کا تعلق جرائم کی سزاؤں سے ہے ) وضع ہوتے ہیں ایک لحاظ سے انہی کے لیے مخصوص ہوتے ہیں اور چونکہ ان کا نفاذ مقصود بالذات نہیں ہوتا ان کا آئندہ نسلوں کے معاملات میں سختی سے نفاذ نہیں ہو سکتا۔ ہے شاید اسی نقطہ نظر سے امام ابو حنیفہ نے جو اسلام کے عالمگیر کردار کے بارے میں گہری بصیرت رکھتے تھے عملی طور پر احادیث کو استعمال نہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے استحسان کے اصول کو متعارف کرایا یعنی فقیہا نہ ترجیح جس سے قانونی فکر میں حقیقی یا اصلی صورت حال کے محتاط مطالعے کی ضرورت سامنے آئی۔ اس سے ان محرکات پر مزید روشنی پڑتی ہے جن سے اسلامی فقہ کے اس ماخذ کے بارے میں ان کے رویے کا تعین ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے احادیث کا اس لیے استعمال نہیں کیا تھا کہ ان کے عہد تک احادیث کا کوئی مجموعہ موجود نہ تھا۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ یہ بالکل درست نہیں کہ ان کے عہد میں احادیث کا کوئی مجموعہ موجود نہ تھا کیونکہ ان کی وفات سے کم از کم تیس سال پہلے تک امام مالک اور امام زہری کے مجموعے وجود میں آچکے تھے۔ اور اگر ہم یہ بھی فرض کر لیں کہ ان تک ان کی رسائی نہیں تھی یا یہ کہ ان میں قانونی اھمیت کی احادیث نہیں تھیں تو بھی امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک اور امام احمد بن حنبل کی طرح خود بھی احادیث کا کوئی مجموعہ مرتب کر سکتے تھے بشرطیکہ وہ اسے اپنے لیے ضروری خیال کرتے۔ مجموعی طور پر میرے خیال میں اس وقت امام ابو حنیفہ کا احادیث کے حوالے سے رویہ نہایت مناسب تھا۔ اب اگر جدید لبرل سوچ رکھنے والے ان احادیث کو بغیر سوچے سمجھے قانون کے مآخذ کے طور پر لینے کے لیے تیار نہیں تو وہ اسلامی قانون کے سنی مکتب فکر کے ایک بہت بڑے نمائندے کی پیروی کر رہے ہیں۔ تاہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ محدثین نے قانون میں مجرد فکر کے رحجان کے خلاف ٹھوس واقعات کی قدر پر اصرار کر کے اسلامی قانون کی بہت بڑی خدمت سر انجام دی ہے۔ اور اگر احادیث کے ذخیرہ ادب کا بڑی عقلمندی سے مزید مطالعہ کیا جائے اور اس روح کو سامنے لایا جائے جس کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ نے وحی کی تشریح کی تو اس سے فقہی اصولوں کی ان اقدار حیات کے مطالعہ میں مدد ملے گی جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ ان اقدار حیات پر مکمل عبور ہی ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم اپنی جدو جہد بنیادی اصولوں کی نئی تعبیر و تشریح کے لیے کریں۔

ج۔ اجماع ـــــــ اسلامی قانون کا تیسرا ماخذ اجتماع ہے جو میری نظر میں شاید اسلام کا سب سے بنیادی قانونی نظریہ ہے۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ یہ اہم نظریہ اوائل اسلام میں علمی مباحث میں تو شامل رہا مگر عملاً وہ محض ایک تصور کی سطح پر ہی رہا۔ یہ کسی بھی اسلامی ملک میں ایک مستقل ادارے کے طور پر متشکل نہیں ہوا۔ غالباً اس کی وجہ چوتھے خلیفہ راشد کے فوراً بعد اسلام میں پرورش پانے والی مطلق العنان ملوکیت تھی جس کے سیاسی مفادات اس مستقل قانونی ادارے سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ میرا خیال ہے کہ یہ اموی اور عباسی خلفا کے زیادہ مفاد میں تھا کہ وہ اجتہاد کے اختیار کو انفرادی طور پر مجہتدین کے پاس رہنے دیتے بجائے اس کے وہ کسی مستقل اسمبلی کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتے کیونکہ ممکن ہے کہ یہ اسمبلی ان سے بھی زیادہ طاقت ور ہو جاتی۔ تاہم یہ نہایت اطمینان کی بات ہے کہ آج عالمی دباؤ ڈالنے والی قو میں اور یورپی اقوام کے سیاسی تجربات اسلام کے جدید ذہن پر اجماع کے نظریے کے امکانات اور اس کی قدر و قیمت کو واضح کر رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں جمہوری روح کے پروان چڑھنے اور قانون ساز اسمبلیوں کی تشکیل سے اس سلسلے میں بڑی پیش رفت ہوئی ہے۔ فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے پیش نظر اجتہاد کے اختیار کے انفرادی نمائندہ فقہی مکاتب سے مسلم قانون ساز اسمبلیوں کو منتقلی ہی اجماع کی وہ واحد صورت ہے جو عصر حاضر میں ممکن ہے۔ اس سے عام آدمی کا قانونی مباحث میں حصہ لینے کا حق بھی محفوظ ہوگا، جو ان مباحث میں گہری بصیرت رکھتا ہے۔ صرف اس طریقے سے ہم اپنے قانونی نظام میں روح حیات کو بیدار کر سکتے ہیں اور اسے ایک ارتقائی صورت دے سکتے ہیں۔ تاہم برصغیر میں مشکلات ابھرنے کا امکان موجود ہے کیونکہ وہاں یہ بات غیر یقینی ہوگی کہ آیا ایک غیر مسلم قانون ساز اسمبلی اجتہاد کی طاقت کو استعمال کر سکتی ہے یا نہیں۔

تا ہم اجماع کے حوالے سے ایک دو سوال ایسے ہیں جنہیں اٹھانا چاہیے اور جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔ کیا اجماع قرآن کی تنسیخ کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے اجتماع کے سامنے ایسا سوال اُٹھانا غیر ضروری ہے۔ تاہم میں اس کو اس وجہ سے ضروری خیال کرتا ہوں کیونکہ کولمبیا یونیورسٹی سے شائع ہونے والی کتاب ” مسلمانوں کے معاشی نظریات ( محمدن تھیوریز آف فنانس ) میں ایک یورپی نقاد نے ایک نہایت غلط فہمی پیدا کرنے والا بیان دیا ہے۔ اس کتاب کا مصنف کسی سند کا حوالہ دیئے بغیر کہتا ہے کہ کچھ حنبلی اور معتزلی مصنفین کے مطابق اجماع قرآن کا ناسخ ہو سکتا ہے۔ اسلام کے فقہی ادب میں اس دعوٰی کا کوئی معمولی جواز بھی موجود نہیں۔ پیغمبر اسلام ﷺ کا کوئی قول بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ مصنف ناسخ کے لفظ سے گمراہ ہوا ہے جو ہمارے ابتدائی دور کے فقہا کی تحریروں میں موجود ہے اور جس کی طرف امام شاطبی نے اپنی کتاب ”الموافقات جلد نمبر ۳ ص ۶۵ پر اشارہ کیا ہے۔ جب یہ لفظ اجماع صحابہ کے مباحث کے حوالے سے استعمال ہو گا تو اس کا مفہوم قرآن کے کسی قانون کے اطلاق میں توسیع یا تحدید ہوگا: اس سے کسی قانون کی تنسیخ یا اس سے کسی دوسرے قانون سے تبدیل کرنے کا اختیار مراد نہیں ہوگا۔ اس توسیع و تحدید کے عمل کے لئے بھی یہ ضروری ہے، جیسا کہ ایک شافعی فقہیہ آمدی ، جس کا انتقال ساتویں صدی کے وسط میں ہوا تھا اور جس کا کام حال ہی میں مصر سے شائع ہوا ہے، نے ہمیں بتایا ہے کہ صحابہ جواز کے طور پر کوئی شرعی حکم رکھتے ہوں۔

اب فرض کریں کہ صحابہ کرام کسی نکتے کے بارے میں کوئی متفقہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو مزید سوال یہ پیدا ہو گا کیا آنے والی نسلیں اس فیصلے کی پابند ہیں۔ امام شوکانی نے اس نقطے پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اور اس سلسلے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کے خیالات کے حوالے دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس سلسلے میں حقیقت الامر سے فیصلے اور کسی قانونی نوعیت کے فیصلے کے مابین امتیاز کیا جانا ضروری ہے۔ جہاں تک اوّل الذکر کا تعلق ہے مثال کے طور پر جب یہ سوال اٹھا کہ کیا دو چھوٹی سورتیں جنہیں معوذتین کہا جاتا ہے اسے قرآن کا حصہ ہیں یا نہیں تو صحابہ کرام نے متفقہ فیصلہ کر دیا کہ یہ قرآن کا حصہ ہیں تو ہم ان کے فیصلے کے پابند ہیں: لازمی بات ہے کہ صرف صحابہ ہی اس پوزیشن میں تھے کہ اس سلسلے میں امر واقعہ کو جان سکیں۔ موخر الذکر معاملے میں مسئلہ صرف تعبیر و تشریح کا ہے۔ معروف کرخی کی سند پر میرا خیال ہے کہ بعد کی نسلیں صحابہ کرام کے فیصلہ کی پابند نہیں ہیں۔ امام کرخی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام کی سنت کے ہم ان معاملات میں پابند ہیں جو قیاس سے واضح نہیں۔ مگر ہم ان معاملات میں جو قیاس سے طے ہو سکتے ہیں صحابہ عظام کی سنت کے پابند نہیں ہیں۔

جدید مسلم اسمبلی کی قانونی کارکردگی کے بارے میں ایک اور سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ کم از کم موجودہ صورت حال میں اسمبلی کے زیادہ تر ممبران مسلم فقہ ( قانون ) کی باریکیوں کے بارے میں مناسب علم نہیں رکھتے۔ ایسی اسمبلی قانون کی تعبیرات میں کوئی بہت بڑی غلطی کر سکتی ہے۔ قانون کی تشریح و تعبیر میں ہونے والی ان غلطیوں کے امکانات کو ہم کس طرح ختم یا کم  سے کم کر سکتے ہیں۔ ایران کے ۱۹۰۶ء کے آئین میں علماء کی ایک الگ کمیٹی کے لیے گنجائش رکھی گئی تھی جنہیں امور دنیا کے بارے میں بھی مناسب علم ہو اور جنہیں آئین سازی کی قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کا حق حاصل تھا۔ میری رائے میں یہ خطرناک انتظامات غالبا ایران کے نظریہ قانون کے حوالے سے ناگزیر تھے۔ اس نظریے کے مطابق بادشاہ مملکت کا محض رکھوالا ہے جس کا وارث در حقیقت امام غائب ہے۔ علما امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے اپنے آپ کو معاشرے کے تمام پہلوؤں کی نگرانی کے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ جاننے میں ناکام ہوں کہ امامت کے سلسلے کی عدم موجودگی میں علماء امام کی نیابت کے دعوے دار کیونکر ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایرانیوں کا نظریہ قانون کچھ بھی ہو، یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ تاہم اگر سنی ممالک بھی یہ طریق اپنانے کی کوشش کریں تو یہ انتظام عارضی ہونا چاہیئے۔ علماء مسلم مجلس قانون ساز کے طاقتور حصے کی حیثیت سے قانون سے متعلقہ سوالات پر آزادانہ بحث میں مددگار اور رہنما ہو سکتے ہیں۔ غلطیوں سے پاک تعبیرات کے امکانات کی واحد صورت یہ ہے کہ مسلمان ممالک موجودہ تعلیم قانون کے نظام کو بہتر بنائیں، اس میں وسعت پیدا کریں اور اس کو جدید فلسفہ قانون کے گہرے مطالعے کے ساتھ وابستہ رکھا جائے۔

د۔ قیاس ــــــــ فقہ کی چوتھی بنیاد قیاس ہے۔ یعنی قانون سازی میں مماثلتوں کی بنیاد پر استدلال۔ اسلام کے مفتوحہ ممالک میں موجود مختلف عمرانی اور زرعی حالات کے پیش نظر امام ابو حنیفہ کے مکتب فکر نے یہ دیکھا کہ عمومی طور پر حدیثوں کے سرمایے میں جو نظائر ریکارڈ ہوئے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں یا ان سے مناسب رہنمائی میسر نہیں تو ان کے سامنے صرف یہی متبادل راہ تھی کہ وہ عقلی یا تمثیلی استدلال کو اپنی تعبیرات میں استعمال کریں۔ تاہم ارسطوی منطق کا اطلاق، اگر چہ عراق میں نئے حالات کے پیش نظر ناگزیر معلوم ہوتا تھا، قانونی ارتقا کے ابتدائی دور میں نہایت نقصان دہ ہو سکتا تھا۔ زندگی کے تہ در تہ کردار کو ایسے لگے بندھے قوانین کے تحت نہیں لایا جا سکتا جو بعض عمومی تصورات سے منطقی طور پر استخراج کئے گئے ہوں۔ اگر ہم ارسطو کی منطق کے حوالے سے دیکھیں تو زندگی داخلی طور پر حرکت پذیر ہونے کی بجائے خالصتاً ایک سادہ میکانکیت دکھائی دے گی۔ لہذا امام ابو حنیفہ کے مکتب فقہ نے زندگی کی تخلیقی آزادی اور آزادانہ روش کو نظر انداز کر دیا جس کی اساس یہ امید تھی کہ خالصتاً استدلال کی بنیاد پر منطقی طور پر ایک جامع اور مکمل قانونی نظام وضع کیا جائے۔ تاہم حجاز کے فقہا نے اپنی عملی فطانت کی بنیاد پر جو انہیں نسلی طور پر ودیعت ہوئی تھی عراق کے فقہا کی مدرسی موشگافیوں اور غیر واقعی معاملوں پر تخیلاتی عبارت آرائی کی ذہنیت کے خلاف زبردست صدائے احتجاج بلند کی جن کے بارے میں وہ درست طور پر سمجھتے تھے کہ یوں ایسے اسلامی قوانین بن جائیں گے جو بے روح میکا نکیت سے عبارت ہوں گے۔ تلخ تنقیدی مباحث اولین دور کے فقہائے اسلام کو قیاس کی تعریف متعین کرنے اور اس کی حدود شرائط اور صحت کے تنقیدی مباحث کی طرف لے گئے۔ ۵۴ گرچہ ابتدائی طور پر قیاس کا طریق کار مجتہد کی ذاتی رائے (اجتہاد) کا ہی دوسرا نام تھا ۵۵ مگر بالآخر یہ اسلامی قانون کے لیے زندگی اور حرکت کا باعث بن گیا۔ امام ابو حنیفہ کے اُصول قیاس بطور ماخذ قانون پر امام مالک اور امام شافعی کی سخت تنقید کی روح واقعہ کی نسبت خیال اور ٹھوس کی نسبت مجرد کی طرف آریائی رحجان کے خلاف موثر سامی مزاحمت ہے۔ در حقیقت یہ منطق استخراجی اور منطق استقرائی کے حامیوں کے درمیان قانونی تحقیق کے طریق کار کی بحث ہے۔ عراقی فقہا بنیادی طور پر نظریے اور تصور کی دوامیت پر زور دیتے تھے جبکہ اہل حجاز اس کے زمانی پہلو پر زیادہ زور دیتے تھے۔ تاہم موخر الذکر خود اپنے نقطہ نظر کی اہمیت سے نا آشنا ر ہے اور حجاز کی قانونی روایت کی طرف ان کی جبلی جانبداری نے ان کی بصیرت کو ان نظائر تک محدود کر دیا جو دراصل پیغمبر اسلام ﷺ اور ان کے اصحاب کے ہاں رونما ہوئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ٹھوس کی اہمیت سے آگاہ تھے مگر ساتھ ہی انہوں نے اسے دوامیت کی طرف لے جانا چاہا اور انہوں نے ٹھوس کے مطالعے کی بنیاد پر قیاس سے شاید ہی کبھی کام لیا۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے مکتب فقہ پر ان کی تنقید نے ٹھوس کی اہمیت بحال کر دی ، اور یوں وہ قانونی اصولوں کی تعبیر کے دوران زندگی کے تنوع اور اس کی حقیقی حرکت کے مشاہدے کی ضرورت کو سامنے لائے۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ کے مکتب فقہ نے ان اختلافی مباحث کو اپنے اندر سموتے ہوئے بھی خود کو اپنے بنیادی اُصولوں میں مکمل طور پر آزاد رکھا اور یہ کسی بھی دوسرے مسلم فقہی مکتب کے مقابلے میں ہر قسم کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے زیادہ تخلیقی قوت کا حامل ہے۔ مگر اپنے ہی مکتب فقہ کی روح کے برعکس عصر حاضر کے حنفی فقہا نے اپنے بانی یا ان کے فوراً بعد کے فقہا (غالباً مراد امام ابو یوسف اور امام محمد ہیں ) کی تعبیرات و تشریحات کو اسی طرح دوامی تصور کر لیا جس طرح امام ابو حنیفہ کے اولین نقادوں (مراد امام مالک اور امام شافعی ) نے ٹھوس معاملات کے بارے میں دیئے گئے اپنے فیصلوں کو قطعی اور دوامی بنا لیا تھا۔ اگر صحیح طور پر سمجھا اور نافذ کیا جائے تو حنفی مکتب فقہ کا یہ بنیادی اُصول یعنی قیاس، جسے شافعی نے درست طور پر اجتہاد ہی کا دوسرا نام کہا ہے، قرآنی تعلیمات کی حدود کے اندر مکمل طور پر آزاد ہے۔ اور بطور اصول اس کی اہمیت اس حقیقت سے عیاں ہے کہ متعدد فقہا کے نزدیک جیسا کہ حضرت امام قاضی شوکانی ہمیں بتاتے ہیں خود حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی اس کی اجازت تھی۔  اجتہاد کے دروازے کا مقفل ہونا محض ایک افسانہ ہے جو کچھ تو اسلام میں فقہی فکر کے ایک مخصوص قالب میں ڈھل جانے اور کچھ اس فکری کاہلی ہو جانے کے سبب گھڑا گیا جو خاص طور پر روحانی زوال کے دور میں ممتاز مفکرین کو بتوں میں تحویل کر دیتی ہے۔ اگر بعد کے کچھ مسلم فقہا نے اس افسانہ طرازی کو باقی رکھا ہے تو جدید اسلام اس بات کا پابند نہیں ہو گا کہ وہ اپنی ذہنی اور عقلی خود مختاری سے رضا کارانہ طور پر دست بردار ہوجائے۔ آٹھویں صدی ہجری میں امام زرکشی نے اس بات کا درست طور پر مشاہدہ کیا تھا:

اگر اس افسانہ طرازی کو باقی رکھنے والوں کا یہ مطلب ہے کہ متقدمین کو زیادہ سہولتیں تھیں، جبکہ متاخرین کی راہ میں زیادہ مشکلات ہیں تو یہ محض ایک لایعنی بات ہے کیونکہ یہ دیکھنے کے لیے کچھ زیادہ عقل کی ضرورت نہیں کہ متقدمین فقہا کی نسبت متاخرین فقہا کا کام کہیں زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ یقینی طور پر قرآن کی تفاسیر اور احادیث کے مجموعے مرتب ہو چکے ہیں اور اس قدر پھیل گئے ہیں کہ آج کے مجتہد کے سامنے تعبیر و تشریح کے لیے ضرورت سے کہیں زیادہ مواد موجود ہے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ مختصر سی بحث آپ پر اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ نہ ہمارے نظام کے بنیادی اصولوں میں اور نہ ہی اس کے ڈھانچے میں کوئی ایسی چیز ہے جو ہمارے موجودہ رویے کے لیے کسی قسم کا جواز مہیا کر سکے۔ گہرے فکر اور تازہ تجربے سے لیس ہو کر دنیائے اسلام کو جرات مندانہ انداز میں اپنے پیش نظر تشکیل جدید کا کام کرنا چاہیے۔ تاہم تشکیل جدید کا زندگی کے موجودہ حالات سے مطابقت و موافقت کے علاوہ ایک بہت زیادہ سنجیدہ تر پہلو بھی ہے۔ یورپی جنگ عظیم ( اول ) جو اپنے جلو میں ترکی کی بیداری لائی ہے ، جسے ایک فرانسیسی مصنف نے حال ہی میں دنیائے اسلام میں استحکام کے عنصر کا نام دیا ہے اور وہ نیا معاشی تجربہ جو مسلم ایشیا کے ہمسائے میں ہو رہا ہے اسلام کی منزل اور اس کی باطنی معنویت کو اُجاگر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانیت کو آج تین چیزوں کی ضرورت ہے: کائنات کی روحانی تعبیر، فرد کا روحانی استخلاص اور ایسے عالمگیر نوعیت کے بنیادی اُصول جو روحانی بنیادوں پر انسانی سماج کی نشونما میں رہنما ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ جدید یورپ نے ان خطوط پر عینیتی نظام تشکیل دے رکھے ہیں مگر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ عقل محض پر اساس رکھنے والی صداقت اس قابل نہیں ہوتی کہ وہ اس زندہ لگن کی آگ کو بھڑ کا سکے جو انسان کو اس کے ذاتی الہام سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خالص فکر نے انسان کو بہت کم متاثر کیا ہے جبکہ مذہب نے انسانوں کو ہمیشہ بلندی کی طرف اٹھایا ہے اور تمام سماجوں کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ یورپ کی مثالیت پسندی اس کے لئے کبھی بھی زندہ عنصر نہیں بن سکی جس کے نتیجے میں ان کی بگڑی ہوئی خود غرضی ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے والی ان جمہور تیوں کی شکل میں اپنا اظہار کر رہی ہے جن کا مقصد وحید امیر کے مفاد کے لیے غریب کا استحصال ہے۔ یقین کیجئے کہ آج کا یورپ انسان کی اخلاقی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کے برعکس ایک مسلمان وحی کی بنیاد پر ایسے قطعی تصورات رکھتا ہے جو زندگی کی گہرائیوں میں کار فرما ہیں اور اپنی بظاہر خارجیت کو داخلیت میں بدل سکتے ہیں۔ اس کے لیے زندگی کی روحانی اساس ایمان کا معاملہ ہے جس کی خاطر ایک نہایت کم علم انسان بھی اپنی جان تک قربان کر سکتا ہے۔ اسلام کے اس بنیادی نظریے کی رو سے کہ اب مزید کسی نئی وحی کی حجیت باقی نہیں رہی ہمیں روحانی اعتبار سے دنیا کی سب زیادہ آزاد اور نجات یافتہ قوم ہونا چاہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمان جنہوں نے قبل اسلام کے ایشیا کی روحانی غلامی سے نجات حاصل کی تھی اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ اس بنیادی نظریے کی اصل معنویت کو جان سکیں۔ آج کے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی اس اہمیت کو سمجھیں، بنیادی اُصولوں کی روشنی میں اپنی عمرانی زندگی کی از سر نو تشکیل کریں اور اسلام کے اس مقصد حقیقی کو حاصل کریں جس کی تفصیلات تا حال ہم پر پوری طرح واضح نہیں ہیں یعنی روحانی جمہوریت کا قیام۔

جدید تر اس سے پرانی