ابتدائیہ (تجدیدِ فکریاتِ اسلام)

 

قرآن پاک وہ کتاب ہے جو فکر کی بجائے عمل پر اصرار کرتی ہے۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے لیے خلقی طور پر یہ ممکن نہیں کہ وہ اس اجنبی کائنات کو ایک حیاتی عمل کے طور پر قبول کرلیں۔ یہ عمل، وہ خاص طرز کا باطنی تجربہ ہے' جس پر بالآخر مذہبی ایمان کا دارومدار ہے۔ مزید برآں جدید دور کے انسان نے ٹھوس فکر کی عادت اپنا لی ہے ایسی عادت جسے خود اسلام نے اپنی ثقافتی زندگی کے کم از کم آغاز میں خود اپنے ہاں پروان چڑھایا تھا۔ اس عادت کی بنا پر وہ اس تجربے کے حصول کا کم ہی اہل رہ گیا ہے جسے وہ اس لئے بھی شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس میں التباس کی گنجائش رہتی ہے۔اس میں شبہ نہیںکہ تصوف کے صحیح مکاتب نے اسلام میں مذہبی تجربے کے ارتقاء کی سمت کو درست کرنے اور اس کی صورت گری کے سلسلے میں نمایاں کام کیا ہے' مگر ان مکاتب کے بعد کے دور کے نمائندے جدید ذہن سے لاعلم ہونے کی بنا پر اس قابل نہیں رہے کہ نئے فکر اور تجربے سے کسی قسم کی تازہ تخلیقی تحریک پا سکیں۔ وہ انہی طریقوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں جو ان لوگوں کے لئے وضع کئے گئے تھے جن کا ثقافتی نقطہ نظر کئی اہم لحاظ سے ہمارے نقطہ نظر سے مختلف تھا۔قرآن کہتا ہے کہ " تمہاری تخلیق اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا ایک نفس واحد کی تخلیق و بعثت کی طرح ہے"۔ حیاتیاتی وحدت کا زندہ تجربہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے آج ایسے منہاج کا تقاضا کرتا ہے جو موجودہ دور کے ٹھوس ذہن کے لیے عضویاتی طور پر کم شدت رکھتا ہو مگر نفسیاتی لحاظ سے زیادہ موزوں ہو۔ اس طرح کے منہاج کی عدم موجودگی میں مذہبی علم کی سائنسی صورت کا مطالبہ ایک قدرتی امر ہے۔ ان خطبات میں جو مدراس کی مسلم ایسوسی ایشن کی خواہش پر لکھے گئے اور مدراس' حیدرآباد اور علی گڑھ میں پڑھے گئے، میں نے کوشش کی ہے کہ اسلام کی فلسفیانہ روایات اور مختلف انسانی علوم میں جدید ترین تحقیقات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے مذہبی فکر کی تشکیل نو کروں تاکہ میں __ جزوی طور پر ہی سہی __ اس مطالبے کو پورا کر سکوں۔ اس طرح کے کام کے لیے موجودہ وقت نہایت موزوں اور مناسب ہے۔ کلاسیکی فزکس نے اب اپنی ہی بنیادوں پر تنقید شروع کر دی ہے۔ اس تنقید کے نتیجے میں اس قسم کی مادیت جسے ابتدا میں اس نے ضروری سمجھا تھا تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔ اب وہ دن دور نہیں جب مذہب اور سائنس اپنے درمیان ایسی ہم آہنگیوں کو ڈھونڈ لیں گے جن کا ابھی تک وہم و گمان بھی نہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ فلسفیانہ فکر میں قطعی اور حتمی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جوں جوں علم آگے بڑھتا ہے اور فکر کے نئے اُفق کھلتے چلے جاتے ہیں اس امر کا امکان ہے کہ شاید کتنے ہی دوسرے نظریات ، ان خطبات میں پیش کئے گئے خیالات سے بھی زیادہ محکم ہوںجو آئندہ ہمارے سامنے آتے رہیں گے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکر انسانی کے ارتقا پر بڑی احتیاط سے نگاہ رکھیں اور اس کی جانب ایک بے لاگ تنقیدی رویہ اپنائے رکھیں۔

محمد اقباؔل

 

جدید تر اس سے پرانی